Maktaba Wahhabi

312 - 531
حوالہ دیا ہے میں وہ قول دوبارہ نقل کردینا چاہتا ہوں ، تا کہ میں اس موضوع سے متعلق جو کچھ عرض کرنے جا رہا ہوں قارئین کے لیے اس کا سمجھنا آسان رہے، فرماتے ہیں : جس حدیث میں پیدا ہونے والے بچوں کو شیطان کے چھونے اور کچوکا لگانے کی خبر دی گئی ہے وہ آحاد کی روایت ہونے کی وجہ سے ظنی خبروں میں شمار ہوتی ہے، اور چونکہ اس کا موضوع عالم الغیب ہے اور غیب پر ایمان عقائد کے شعبہ سے تعلق رکھتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد:﴿اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا﴾ [1]کی وجہ سے ناقابل قبول ہے، لہٰذا اپنے عقائد میں ہم اس طرح کی حدیثوں کے مضمون پر ایمان لانے کے مکلف نہیں ہیں ۔‘‘ ابوریہ نے یہی بات دوسرے الفاظ میں اپنی کتاب میں ایک دوسری جگہ بھی دہرائی ہے لکھتا ہے: ’’جمہور کا قول ہے کہ اخبار آحاد سے قطعی علم حاصل نہیں ہوتا، اگرچہ وہ بخاری اور مسلم ہی میں کیوں نہ آئی ہوں ، البتہ امت کے ان کو قبول کرنے کی وجہ سے ان میں بیان کردہ احکام پر اس وجہ سے عمل کیا جائے گا کہ امت کو یہ حکم ہے کہ وہ ہر اس خبر کو تسلیم کرے جس کے سچ ہونے کا گمان غالب ہو۔[2] ’’احادیث آحاد ‘‘ ظنی ہیں یا یقینی اس کا صحیح جواب اس وقت تک معلوم نہیں کیا جا سکتا جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ سورۂ یونس کی مذکورہ آیت سے اس مسئلہ میں استدلال درست ہے یا نہیں اور یہ معلوم کرنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن پاک میں ’’ظن ‘‘ کتنے معنوں میں استعمال کیا گیاہے اوران میں سے حدیث کے ظنی ہونے پر کس معنی سے استدلال کرنا صحیح ہے؟ بنا بریں کیا سورۂ یونس کی مذکورہ آیت’’حدیث واحد ‘‘ پر منطبق ہوتی ہے؟ یا اس کو اس پر منطبق کرنے کی کوشش محض ہٹ دھرمی ہے؟ ان تمام سوالوں کا صحیح اور قابل اطمینان جواب معلوم کرنے کے لیے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ لفظ’’ظن ‘‘ قرآن پاک میں کتنے معنوں میں استعمال ہوا ہے،چنانچہ پورے قرآن پاک کے تتبع سے اس لفظ کے پانچ معنی بہت نمایاں ہیں : ۱۔ ظن بمعنی یقین یا علم الیقین: سورۂ بقرہ میں حق دشمن’’جالوت ‘‘ اور اس کی فوجوں کے خلاف بر سر پیکار ’’طالوت ‘‘ اور اس کی مومن فوجوں کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ﴿ قَالَ الَّذیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرہ: ۲۴۹) ’’جو لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ درحقیقت وہ اللہ سے ملنے والے ہیں انہوں نے کہا کہ بار ہا ایسا ہو چکا ہے کہ
Flag Counter