Maktaba Wahhabi

320 - 531
کرام کی اکثریت ان سے مستفید بھی نہیں ہو سکتی تھی، البتہ لکھے جانے والے یہ تمام اجزاء مکمل طور پر محفوظ بھی تھے اور سینوں میں محفوظ قرآن پاک کے اجزاء کے سو فیصد مطابق بھی تھے، اس طرح دراصل وعدۂ الٰہی: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ پورا ہو رہا تھا۔ رہی قرآن پا ک کی نشر و اشاعت کی شکل میں تبلیغ دین تو صحابہ کرام یہ کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن پاک اور آپ کے ارشادات، حدیث سن کر ، ان کو اپنے سینوں میں محفوط کر کے اور جن لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست انہیں سننے کے مواقع نہیں ملتے تھے ان سے ان کو بیان کر کے انجام دیتے تھے۔ جو منکرین حدیث یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’قرآن و حدیث کی حفاظت کا معیار یکساں نہیں تھا: قرآن حکیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی میں تحریر کرکے محفوظ کر دیا گیا تھا اور اس کی ترتیب بھی وحی الٰہی کی روشنی میں متعین کر دی گئی تھی۔ خلفائے راشدین کے دور میں قرآن کے متعدد نسخے مختلف علاقوں میں بھیجے جا چکے تھے، آج وہ نسخہ بھی محفوظ ہے، جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے تھے…‘‘ [1] تو اس دعویٰ کا کھوکھلا پن بڑی حد تک مذکورہ بالا تفصیلات سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ منکرین حدیث قران کے بذریعۂ کتابت محفوظ کیے جانے کے مسئلہ کو اتنی اہمیت اس سے محبت کے جذبہ سے نہیں دیتے، بلکہ ان کے ایسا کرنے کا محرک یہ ہوتا ہے کہ اس طرح وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے اصحاب اور بعد کے مسلمانوں نے خود قرآن کو محفوظ رکھنے کے لیے جو اہتمام برتا وہ اہتمام انہوں نے حدیث یا سنت کو محفوظ رکھنے کے لیے نہیں برتا، گویا دوسرے لفظوں میں ان کے نزدیک قرآن کی تشریعی حیثیت کی جو اہمیت تھی، وہ اہمیت حدیث یا سنت کی تشریعی حیثیت کی نہیں تھی۔ اوپر میں نے جن ڈاکٹر افتخار برنی کے مضمون کا اقتباس نقل کیا ہے وہ پیشے کے اعتبار سے طبیب ہیں اور ان کی کوئی دینی اور علمی حیثیت نہیں ہے، البتہ وہ مولانا امین اصلاحی کے ’’نظریۂ حدیث‘‘ کے گرم جوش وکیل اور حامی ہیں اور حق یہ ہے کہ جہاں انہوں نے اصلاحی صاحب کے افکار کو ہضم کر رکھا ہے، وہیں ان کو ان کی وکالت کا ہنر بھی آتا ہے۔ میں نے ان کے جس مضمون کا اقتباس اوپر نقل کیا ہے وہ ان کے ان چار مضامین میں سے ایک ہے جو انہوں نے جدہ سے شائع ہونے والے اردو اخبار، اردو نیوز کے جمعہ کے ایڈیشن ’’روشنی‘‘ میں سلسلہ وار شائع کرائے تھے اور حدیث کی حجیت کے موضوع پر اس اخبار میں شائع ہونے والے میرے مضامین پر تنقیدی اعتراضات کیے تھے، چونکہ انہوں نے برصغیر کے منکرین حدیث کے افکار اور دعاوی کی ترجمانی کی ہے اس لیے میں نے ان کے مضمون سے مذکورہ اقتباس نقل کر کے اس کے مندرجات کو اپنا موضوع بحث بنایا ہے، کیونکہ اس طرح برصغیر کے تمام منکرین کے مغالطوں کی حقیقت
Flag Counter