Maktaba Wahhabi

321 - 531
عیاں ہو جائے گی۔ مذکورہ اقتباس میں ڈاکٹر برنی نے قرآن و حدیث کی حفا ظت کے معیار میں عدم یکسانیت کا جو دعویٰ کیا ہے وہ دعوی ان سے بہت پہلے ۱۹۴۵ء یا اس سے لگ بھگ زمانے میں مشہور منکر حدیث، بلکہ منکر قرآن محمود ابوریہ اپنی رسوائے زمانہ کتاب: ’’أضواء علی السنۃ المحمدیہ‘‘ میں کر چکا ہے۔ اسی کتاب میں اس نے سنت اور حدیث میں فرق کا دعویٰ بھی کیا ہے جس کو برصغیر میں اصلاحی مکتبۂ فکر سے وابستہ لوگ امین اصلاحی کا انکشاف بتاتے ہیں ۔ ابوریہ سے قبل سنت اور حدیث میں اس فرق کا ذکر ضمناً سید رشید رضا متوفی ۱۹۳۳ء نے اپنے رسالہ ’’المنار‘‘ کے شماروں میں کیا تھا اور المنار کے شمارے ابوریہ کے زیر مطالعہ رہتے تھے اور حدیث سے متعلق اس کے بہت سے افکار اس رسالے سے ماخوذ تھے۔ سید رشید رضا رحمہ اللہ کا شمار حاشا وکلا منکرین حدیث میں نہیں ہوتا، جس کی دلیل یہ ہے کہ وہ متحدہ ہندوستان کے علمائے حدیث کی خدمات حدیث کے بڑے مداح تھے اور انہوں نے ہی مشہور محدث علامہ محمد بشیر سہسوانی رحمہ اللہ کی معرکۃ الأرا کتاب ’’صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الشیخ دحلان‘‘ اپنے خرچ پر اور اس پر شاندار مقدمہ لکھ کر ’’المنار‘‘ کے پریس سے شائع کی تھی۔ دراصل اس زمانے میں بکثرت پھیلی ہوئی اور زبان زد جھوٹی، موضوع اور منکر روایتوں کی وجہ سے سید رشید رضا کو حدیث کے قبول ورد میں عام محدثین کی رو سے ہٹ کر کچھ تحفظات تھے جن کا اظہار وہ اپنے رسالہ میں کرتے تھے، چونکہ وہ عالم حدیث نہیں تھے، اس لیے نادانستہ ان کے قلم سے ایسی باتیں نکل جاتی تھیں جن سے ابوریہ اور دوسرے منکرین نے اپنے فاسد افکار کے حق میں استدلال کیا ہے۔ درمیان میں اس توضیحی جملہ معترضہ کے بعد میں اپنے موضوع پر واپس آتا ہوں اور عرض گذار ہوں کہ اوپر ڈاکٹر برنی کی جو عبارت نقل کی گئی ہے اس میں دو دعوے کیے گئے ہیں : ۱۔ قرآن حکیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی میں تحریر کر کے محفوظ کر دیا گیا تھا اور اس کی ترتیب بھی وحی الٰہی کی روشنی میں متعین کر دئی گئی تھی۔‘‘ ۲۔ خلفائے راشدین کے دور میں قرآن کے متعدد نسخے مختلف علاقوں میں بھیجے جا چکے تھے۔ آج وہ نسخہ بھی محفوظ ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تھے…‘‘ ڈاکٹر برنی نے یہ دونوں دعوے یہ ثابت کرنے کے لیے کیے ہیں کہ قرآن کے محفوظ رہنے کا بنیادی سبب اول روز ہی سے اس کو ضبط تحریر میں لانا رہا ہے ، جبکہ حدیث صرف سینہ بسینہ ہی منتقل ہوتی رہی، اس بات کا دعویٰ انہوں نے اس کے بعد کے فقرے میں بڑی شد و مد سے کیا ہے، پہلے میں ان دونوں دعووں کا علمی اور واقعاتی جائزہ لینا چاہتا ہوں ، تاکہ
Flag Counter