Maktaba Wahhabi

327 - 531
دو اہل علم بھی متفق نہیں رہے ہیں اور جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر افتحار برنی کے امام تو یہاں تک فرما گئے ہیں کہ: ’’خبر تواتر‘‘ کا اسم تو موجو دہے، لیکن ہمارے علم کی حد تک اس کا کوئی صحیح مسمی موجود نہیں ہے۔‘‘[1] لیکن تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ تسلیم کیے لیتے ہیں کہ عالم واقعہ میں تواتر اپنا کوئی وجود رکھتا ہے اور کسی خبر کے قطعی الثبوت اور حق الیقین ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے نقل کرنے والے ہر دور اور ہر طبقہ میں اتنے رہے ہوں جن کا جھوت پر اتفاق کرنا ناممکن اور محال ہو، یہ تسلیم کرنے کے بعد بھی یہ سوال قائم رہتا ہے کہ: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن پاک سورۂ فاتحہ سے سورۂ ناس تک سننے والوں کی تعداد اتنی تھی جس کو متواتر کا نام دینا درست ہو؟ کیونکہ تواتر کی یہ پہلی اور بنیادی شرط ہے اور کیا قرآن کی یہی متواتر منتقلی ہی اس کے قطعی اور یقینی ہونے کا سبب ہے یا کوئی دوسرا سبب ہے؟ ان سوالوں میں سے پہلے سوال کا صحیح اور امر واقعہ کے مطابق جواب یہ ہے کہ پورے قرآن پاک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے براہ راست سننے والوں کی تعداد کسی بھی تعریف کی رو سے حد تواتر کو نہیں پہنچی تھی اور ایسا ممکن بھی نہیں تھا، اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ۲۱ دن، بلکہ بعض روایتوں کے مطابق آخری آیت (سورۂ بقرہ آیت ۲۸۱) وفات سے صرف ۹ دن قبل نازل ہوئی تھی اور قرآن پاک کی آخری مکمل سورت (سورۂ نصر) وفات سے ۸۱ دن قبل حجۃ الوداع کے موقع پر ۱۰ ذی الحجہ کو منی میں نازل ہوئی۔ [2] دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پا ک میں پورے قرآن پاک کے حفاظ کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، چنانچہ صحیحین میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے مروی حدیث کے مطابق ان حفاظ کے نام یہ ہیں : عبد اللہ بن مسعود، سالم مولی ابو حذیفہ ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور ابو زید۔ اوس یا قیس بن سکن۔[3] ابو عبید نے فضائل القرآن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں حفاظ قرآن کی جو تعداد لکھی ہے وہ صحیحین کی حدیث میں مذکورہ تعدادسے زیادہ ہے، انہوں نے حفاظ میں چاروں خلفائے راشدین کے علاوہ طلحہ، سعد، ابن مسعود، حذیفہ، سالم، ابو ہریرہ، عبد اللہ بن سائب، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عمرو اور امہات المؤمنین میں سے عائشہ، حفصہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم کو شمار کیا ہے۔ [4] لیکن ان کا یہ قول محل نظر ہے، کیونکہ ان میں سے بعض نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پورا قرآن حفظ کیا، مثال کے طور پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حیات نبوی میں پورے قرآن کے حافظ نہیں تھے، اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بعد میں بھی پورا
Flag Counter