Maktaba Wahhabi

328 - 531
قرآن پاک حفظ نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ ثابت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اپنے آزاد کردہ غلام ذکوان کی امامت میں نماز تراویح پڑھتی تھیں اور ذکوان رضی اللہ عنہ قرآن دیکھ کر تلاوت کرتے تھے ۔[1] اگر وہ قرآن کی حافظ ہوتیں تو ان کو دوسرے سے اسے سننے کی ضرورت نہ ہوتی۔ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ۱۲۲ تلاوت کی تو عمر رضی اللہ عنہ پر سکتہ طار ہو گیا، اس وقت ان کو معلوم ہوا کہ قرآن میں ایسی بھی کوئی آیت ہے، دوسرے صحابہ کا بھی ہی حال ہوا۔ [2] عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اپنے عہد رسالت تک یہی نہیں معلوم تھا کہ قرآن میں کوئی ایسی بھی آیت ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے اور جب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان کو سورۂ احقاف کی پندرہویں آیت پڑھ کر سنائی اس وقت ان کو یہ بات معلوم ہوئی۔[3] عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ محتاج بیان نہیں ہے وہ نہایت قدیم الاسلام صحابی تھے اور ان کا شمار ﴿السابقون الأولون﴾ میں ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے تعلق اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ان کی اور ان کی والدہ کی اتنی آمدورفت رہتی تھی کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ آپ سے ان کی قرابت ہے۔ [4] اور ان کا نام قرآن کے حفاظ کے سرفہرست آتا ہے، بایں ہمہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے براہ راست پورے قرآن کو سننے کا دعویٰ نہیں کیا ہے، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ’’ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کچھ اوپر ستر سورتیں سیکھی ہیں ۔[5] خلاصۂ بحث یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں جہاں پورے قرآن کے حفاظ معدودے چند تھے اور زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جن کو قرآن کے قابل قدر اجزا زبانی یاد تھے اور ان میں سے اجلۂ صحابہ بھی شامل تھے وہیں صحابہ کرام کی اکثریت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست نہیں ، بلکہ بالواسطہ قرآن حاصل کیا تھا اس طرح قرآن کی روایت بھی متواتر نہیں قرار پائی۔ ڈاکٹر برنی نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ نسخہ بھی محفوط ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمان غنی شہید کیے گئے تھے، تو یہ دعویٰ محل نظر ہونے کے علاوہ قرآن کے محفوظ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے جو
Flag Counter