Maktaba Wahhabi

362 - 531
کہا: ہم سے قاسم بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا: عائشہ نے فرمایا ہے…‘‘ حافظ ابن کثیر نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: اس سند سے یہ روایت حد درجہ ضعیف ہے اور اس کی سند کا ایک راوی علی بن صالح غیر معروف ہے۔[1] امام عبد الرحمن بن ابی حاتم نے الجرح والتعدیل میں لکھا ہے: اس نے ابن جریج سے حدیث روایت کی ہے اور اس سے معتمر بن سلیمان نے، اور میں نے اپنے والد سے اس کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: میں اسے نہیں جانتا، مجہول ہے۔[2] امام ذھبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے: ابن الجوزی نے کہا ہے کہ ’’محدثین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ: مجھے نہیں معلوم وہ کون ہے۔[3] حافظ ابن حجر کا قول ہے: علی بن صالح چادر فروش تاجر تھا، آٹھویں طبقہ کا مجہول راوی ہے۔‘‘[4] امام ذھبی نے تذکرۃ الحفاظ میں یہ روایت نقل کی ہے اور اس پر یہ تبصرہ کیا ہے: یہ صحیح نہیں ہے۔‘‘[5] علامہ عبد الرحمن بن یحییٰ معلمی نے لکھا ہے کہ اس اثر کی سند میں علی بن صالح کے علاوہ بھی ایسے راوی ہیں جن کی ثقاھت محل نظر ہے۔‘‘ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس نوٹ کا ذکر کر دوں جو اردن کے ایک عالم شیخ محمد عوامہ نے مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب ’’تدوین حدیث‘‘ کے حاشیہ پر اس روایت کے بارے میں لکھا ہے: امام حاکم کے حوالہ سے امام ذھبی نے اس روایت کی جو سند نقل کی ہے اس میں ایک راوی محمد بن موسی بربری ہے جس کا ترجمہ خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں دیا ہے، یہ شیعہ لگتا ہے اور واقعہ کا تعلق صدیق اور ان کی بیٹی صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہے!!! [6] شیخ محمد عوامہ کے اس نوٹ کی صحت کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا، کیونکہ امام ذھبی کی تذکرۃ الحفاظ اس وقت میرے سامنے نہیں ہے، البتہ علامہ معلمی کے قول سے کہ ’’سند کے دوسرے راوی بھی محل نظر ہیں ‘‘ محمد عوامہ کے نوٹ کی تائید ہوتی ہے۔ اب تک جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سے منسوب اثر کی سند سے متعلق تھا۔ رہا اس کا متن تو وہ منکر اور باطل ہے، کیونکہ اس میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محض قلم بند کر لینے کے نیتجے میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جس کرب کی تصویر کشی کی گئی ہے اس کرب میں ایک مومن و صالح بندہ نہایت بھیانک اور سنگین گناہ کے ارتکاب پر ہی مبتلا ہو سکتا ہے
Flag Counter