Maktaba Wahhabi

363 - 531
اس طرح روایت گھڑنے والے نے ابو بکر صدیق اور ان کی بیٹی صدیقہ رضی اللہ عنہا کی دراصل مذمت کی ہے یاد رہے کہ حدیث کی کتابت کے مسئلہ میں صحابۂ کرام اور ائمہ اسلام کے درمیان جو اختلاف تھا وہ صرف اس حد تک تھا کہ قرآن اور حدیث کی کتابت ایک ساتھ کرنے سے دونوں میں اختلاط کا اندیشہ تھا۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہو تو جو لوگ کتابت کے جواز کے قائل تھے وہ اس کو ’’منع کی حدیث‘‘ کے خلاف نہیں سمجھتے تھے اور جو لوگ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے حدیثیں تحریر کرنے کے خلاف تھے وہ بھی اس کو ایسا جرم اور گناہ تصور نہیں کرتے تھے کہ اس کی وجہ سے کوئی اس کرب و بے چینی میں مبتلا ہو جائے جس کرب و بے چینی میں مبتلا صدیق اکبر کو دکھایا گیا ہے اور منکرین کی ساری کوشش اس نقطہ پر مرکوز ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی نظر میں بھی حدیث کو وہ اہمیت حاصل نہیں تھی جو اہمیت بعد میں محدثین نے اسے دی ہے۔ اس جھوٹی روایت کا یہ فقرہ: اور جو حدیثیں میں نے قلم بند کی ہیں وہ ویسی نہ ہوں جیسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان کی ہیں ‘‘ زیادہ نکارت رکھتا ہے، کیونکہ اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جو پانچ سو احادیث قلم بند کر رکھی تھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی نسبت کی بابت ان کو شک تھا اس طرح ان کے حافظہ اور کتابت حدیث میں ان کی امانت داری کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ تو ابو بکر رضی اللہ عنہ سے منسوب اثر کی سند اور متن کی عدم صحت کے بارے میں تھا رہا ابوریہ کا احادیث کی کتابت کی ممانعت پر استدلال تو بشرط صحت بھی اس سے یہ استدلال صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کو اس سبب سے نہیں جلایا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث لکھنے سے منع فرمایا ہے اور پھر ان کو جلا دینے سے وہ حکم نبوی کی خلاف ورزی کے تو مرتکب ہو چکے تھے اور ان کو جلانا اس کا کفارہ نہیں بن سکتا تھا الا یہ کہ ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا علم نہ رہا ہو اور جس رات ان کی یہ کیفیت ہوئی، اس رات اچانک ان کے علم میں آپ سے آپ وہ حکم نبوی آ گیا تو یہ مفروضہ ان کے مقام ومرتبے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی طویل رفاقت کے خلاف ہے۔ دراصل اس جھوٹی روایت میں احوص بن مفضل کا جو یہ اضافہ ہے کہ: ان لکھی ہوئی حدیثوں سے یہ نیتجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایسی حدیثیں لکھنے سے رہ گئی ہیں جو مجھے نہیں ملیں اور جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتاہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا ہوتا تو وہ ابو بکر پر مخفی نہیں رہتیں ۔ [1]تو یہ اضافہ ان کو جلانے کا سبب بیان کر رہا ہے اور یہ اضافہ بجائے خود اتنا لچر ہے کہ اس کو لکھی ہوئی حدیثوں کو جلانے کا سبب قرار دینا حد درجہ مضحکہ خیز ہے۔ آخر کس صحابی یا غیر صحابی کے ذہن و دماغ میں یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ احادیث رسول کی تعداد صرف پانچ سو ہے۔ یا ابو بکر کے علم میں جو حدیثیں نہیں ہیں وہ حدیث نہیں ہیں ؟!!
Flag Counter