Maktaba Wahhabi

412 - 531
اضافت اور نسبت کی تردید فرما دیتا اور یہ واضح فرما دیتا کہ اس کو ’’صاحب ہاتھ‘‘ قرار دینا مخلوق سے اس کو تشبیہ کیا دینا ہے اس کے برعکس نہ صرف یہ کہ اس نے اپنے لیے ہاتھ کے اثبات کو برقرار رکھا، بلکہ تصحیح فرما کر ایک کے بجائے دو ہاتھ اپنی جانب منسوب فرما لیے اس طرح یہ تاکید فرما دی کہ ’’یہاں ‘‘ ’’ید‘‘ اور ’’یدان‘‘ سے مراد حقیقی ہاتھ ہی ہیں ، نہ کہ ان سے مراد قدرت اور نعمت ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہاتھ سے قدرت اور نعمت مراد لینا عربی زبان اور اردو زبان دونوں میں معروف ہے، لیکن جس اسلوب بیان میں یہاں اس آیت مبارکہ میں اس کا استعمال ہوا ہے اور وہ بھی بصیغہ ’’تثنیہ‘‘ وہ اس کو حقیقی ہاتھ کے معنی میں لینے کو حتمی اور لازمی بنا دیتا ہے۔ قرطبی کو عربی زبان میں مہارت حاصل تھی اور وہ عربی زبان کے اسالیب بیان سے اچھی طرح واقف تھے اور یہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہودیوں کے الزام: ((ید اللّٰہ مغلولۃ)) کے جواب میں ((بل یداہ مبسوطتان)) کی تعبیر اس امر میں بیان قاطع ہے کہ ((یداہ)) سے حقیقی ہاتھ ہی مراد ہیں اور سیاق و سباق اور اسلوب بیان نے اس سے قدرت اور نعمت وغیرہ مراد لینے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہنے دی ہے، پھر بھی انہوں نے ’’یداہ‘‘ سے قدرت و نعمت مراد لینے کو درست قرار دینے پر اپنا سارا زور صرف کر ڈالا ہے اور اس کے لیے جتنی آیات اور احادیث اور اسالیب عرب کی تحریف کر سکتے تھے اس سے دریغ نہیں کیا ہے۔[1] دراصل اہل تعطیل کا نور بصیرت سلب ہو چکا ہے وہ ایسے ائمہ اور معبود کا تصور کرنے سے قاصر ہیں جو اپنے شایان شان صفات سے موصوف ہو، لیکن ان کا بیمار ذہن و قلب ایسے الہ اور معبود کو ماننے اور تسلیم کرنے سے پس و پیش نہیں کرتا جو ہر طرح کی صفات سے عاری اور مجرد ذات ہو سبحانہ وتعالی عما یصفون۔ میں نے سطور بالا میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زیر بحث حدیث پر ابن بطال، خطابی اور قرطبی کے اعتراضات تو فتح الباری سے نقل کیے تھے، لیکن ان کے جوابات میرے اپنے تھے ان جوابات کو اگر سنجیدگی کے ساتھ پڑھا جائے تو ان میں غوروتدبر کا ایک نیا انداز ملے گا اور متکلمین اور دوسرے عقلیت پسندوں کی ذہنیت اور ان کے انداز استدلال کی کجی اور سطحیت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بحث کو جن الفاظ پر ختم کیا ہے وہ سونے کے پانی سے لکھنے جانے کے قابل ہیں ، فرماتے ہیں : ’’اگر امر واقعہ اس کے برعکس ہوتا جو حدیث کے راوی نے اپنے ظن و گمان سے سمجھ لیا تھا تو اس سے یہ لازم آتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باطل چیز کی تصویب فرما دی اور اس کے رد و انکار سے سکوت اختیار فرمائی، اس سے اللہ کی پناہ!!‘‘
Flag Counter