Maktaba Wahhabi

432 - 531
مذکورہ چاروں شخصیتوں میں سے دو کا تعلق منکرین حدیث سے ہے، البتہ رنگ جدا جدا ہے، ابوریہ انکار حدیث میں جری ہے، اگرچہ اس کا دعوی یہی ہے کہ حدیث کے قبول درد سے متعلق اس نے اپنی کتاب ’’اضواء علی السنۃ الحمدیہ‘‘ میں جو کچھ لکھا ہے وہ دین کی خیر خواہی ہی کے جذبے سے لکھا ہے، لیکن اس کا یہ دعوی پوری کتاب میں خیر خواہی کی کوئی ایک بھی علامت نہیں رکھتا، بلکہ اس کے مغالطوں اور علمی خیانتوں سے عبارت ہے، محمود ابوریہ نے عالم عرب کے منکرین حدیث کی نمایندگی ہے۔ ڈاکٹر افتخار برنی پیشہ کے اعتبار سے طبیب ہیں ؛ عربی زبان اور اسلامی علوم کا براہ راست علم نہیں رکھتے، فہم قرآن اور فہم حدیث دونوں کی صلاحیت نہیں رکھتے، البتہ برصغیر خصوصاً پاکستان میں انکار حدیث کا جو فتنہ مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا رہا ہے اس سے اور اس فتنہ کو رہ رہ کر ہوا دینے والوں کے افکار و خیالات اور دلائل و دعادی سے بھرپور واقفیت رکھتے ہیں ، یہ بھی حدیث کی تشریعی حیثیت کے خلاف جو زہر افشانیاں کرتے ہیں دین کی خیر خواہی کے ’’درد‘‘ میں ہی کرتے ہیں ۔ محمود ابوریہ اور ڈاکٹر افتخار برنی دونوں کا دعوی ہے کہ قرآن کی طرح حدیث کے مدون نہ کیے جانے کی وجہ سے اس میں آمیزش اور ملاوٹ ہو گئی: ابوریہ کہتا ہے کہ: اگر احادیث اسی وقت ضبط تحریر میں لے آئی جاتیں جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے صادر ہوتی تھیں تو وہ اس طرح لوگوں کے علم میں آ جاتیں جس طرح اللہ کی کتاب ان کے علم میں آ جاتی تھی، اور ان کی صحت و عدم صحت کی بحث و تحقیق کی ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک اور صحابہ کے زمانے میں حدیث کی عدم تدوین کے باعث علمائے حدیث کو حدیث کے مسئلہ میں بحث و تحقیق کا سلسلہ جاری کرنا پڑا، تاکہ صحیح احادیث کو موضوع احادیث سے الگ کر سکیں ۔[1] ابوریہ نے اپنی کتاب میں بار بار یہ بات دہرائی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر ابتداء ہی میں حدیثیں لکھ لی جاتیں تو قرآن کی طرح وہ محفوظ ہو جاتیں ‘‘ گویا قرآن کے محفوظ ہونے کا سبب اس کی کتابت ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن پاک کے محفوظ ہونے میں اس کی کتابت کا معمولی کردار بھی نہیں رہا ہے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں مختلف صحیفوں میں غیر مرتب قرآن کا جو نسخہ تیار کیا گیا تھا، نہ تو صحابہ کرام اس کو پڑھتے تھے اور جن لوگوں کے پاس یہ صحیفے تھے، ان کے سوا کوئی ان سے واقف بھی نہیں تھا، اور عہد صدیقی میں جو مصحف تیار کیا گیا تھا وہ بھی صرف ایک نسخہ تھا جو پہلے ان کی تحویل میں رہا، پھر عمر رضی اللہ عنہ کی تحویل میں چلا گیا اور ان کی شہادت کے بعد ان کی بیٹی ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کی تحویل میں رہا جن سے ۲۰ سال کے بعد ۳۱ھ میں عثمان رضی اللہ عنہ نے عاریتہ لے کر اس سے قرآن کے سات نسخے تیار کرائے اور ان میں سے ایک کو دارالخلافت میں محفوظ کیا اور بقیہ نسخے مختلف علاقوں کے امراء کے پاس بھیج دئیے، یہ نسخے عام لوگوں کی تلاوت کے لیے تھے ہی نہیں کہ قرآن کے محفوط ہونے کا سبب اور بنیاد بنتے۔ معلوم ہوا کہ قرآن کے
Flag Counter