Maktaba Wahhabi

433 - 531
محفوظ رہنے کا بنیادی اور واحد سبب ’’حفظ سینہ ہی تھا۔‘‘ پھر تین صدیوں میں کوئی ایک بھی ایسا صحیح واقعہ نہیں ملتا جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ سرکاری یا عوامی سطح پر باقاعدہ قرآن پاک کے نسخے تیار کرا کے لوگوں میں تقسیم کرائے گئے ہوں ، بلکہ قرآن کی تبلیغ، تعلیم اور تلاوت ہر چیز زبانی ہی کی جاتی تھی، البتہ انفرادی طور پر اور ذاتی استعمال کے لیے صحابہ کرام میں یکاد کا افراد نے اور تابعین کے دور میں متعدد افراد نے قرآن کے نسخے تیار کیے ہوں گے، بلکہ کیے تھے جس کی تحقیق میرے موضوع سے خارج بھی ہے اور قرآن کی طرح تابعین کے دور میں احادیث کی کتابت کے وجود کے نتیجے میں دونوں میں کوئی وجہ امتیاز بھی نہیں ہے۔ ابوریہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’حدیث کی تدوین‘‘ امراء کے حکم سے ہوئی تھی[1] اس سے اس نے یہ تاثر دینے کی مذموم کوشش کی ہے کہ ’’تدوین حدیث‘‘ میں سیاسی عنصر بھی شامل ہو گیا تھا۔ یہ دراصل ابوریہ کی بیمار ذہنیت کا غماز ہے۔ پھر یہ الزام تدوین قرآن پر بھی صادق آتا ہے؛ کیونکہ اگر یہ ثابت ہے کہ حدیث کی باقاعدہ تدوین کا حکم عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے دیا تھا جن کی وفات ۱۰۱ھ مطابق ۷۱۹ء میں ہوئی تو قرآن کی باقاعدہ تدوین کا پہلا حکم ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ نے ۱۱ہجری میں دیا اور ۳۱ھ میں عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے قرآن پاک کی کتابت قریش کے لہجے میں کر کے دوسرے تمام لہجات کو منسوخ قرار دے دیا گیا اب اگر یہ کہا جائے کہ کہاں خلفائے راشدین اور کہاں ایک اموی خلیفہ؟ تو اس کے جواب میں ہم پورے یقین قلب سے یہ کہیں گے کہ جہاں تک شرف صحابیت اور خلافت راشدہ کے منصوص شرف کا معاملہ ہے تو بلاشبہ عمر بن عبد العزیز ان تینوں جلیل القدر صحابیوں کے مقام و مرتبے سے فروتر ہیں اور ان کے مابین موازنہ تک کرنا درست نہیں ہے، لیکن اگر اللہ کے نزدیک ایمان و عمل صالح اور خلافت علی منہاج النبوۃ کی قدر و منزلت کی کوئی حقیقت ہے تو بلاشبہ وہ خلیفہ راشد تھے اور ان کی اس حیثیت کو تمام ائمہ حدیث و فقہ اور مؤرخین نے تسلیم کیا ہے۔ اس تناظر میں جہاں قرآن کی تدوین کا حکم خالص لوجہ اللہ تھا وہیں حدیث کی تدوین کا حکم بھی کسی ذاتی غرض اور سیاسی مفاد سے پاک خالص لوجہ اللہ تھا۔ ڈاکٹر برنی کے بارے میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ ان کا کوئی بھی علمی مقام و مرتبہ نہیں ہے اور علم حدیث یا کسی اور علم میں ان کا شمار نہ ’’عیر‘‘ میں ہوتا ہے نہ نفیر میں ، مگر چونکہ انہوں نے تدوین حدیث کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے وہی برصغیر کے تمام منکرین حدیث کا دعوی ہے اس طرح ان کے دعوی کا رد تمام منکرین کے دعووں کا رد ہو گا، اور ان کا دعوی ہے: احادیث کی کتابت یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں شروع ہو چکی تھی، مگر ان کی اصل تدوین کا کام عباسی خلفاء کے زمانے میں انجام پایا‘‘[2] مولانا مناظر احسن گیلانی کا شمار حامیان حدیث میں ہوتا ہے اور ان کی کتاب ’’تدوین حدیث‘‘ خود اپنے موضوع بحث پر دلالت کرتی ہے، ان کے نظریہ کا ماحصل یہ ہے کہ احادیث کی کتابت مطلقا ممنوع نہ تھی، بلکہ ان احادیث کی
Flag Counter