Maktaba Wahhabi

483 - 531
میں جب آج سے چودہ صدی قبل ان کی جو تفصیلات بیان کر دی گئیں اس وقت سے آج تک عقل نے ان میں سے کسی چیز کی تردید نہیں کی ۔ اور علم طب نے بھی جو سراسر تجرباتی علم ہے ان قرآنی بیانات کی تائید کی ۔ ۲۔ قرآن کے مطابق اہل کتاب یہودیوں میں ایک شخص قتل کر دیا گیا مگر قاتل نے ایسی کوئی نشانی نہیں چھوڑی جس سے اس کو معلوم کیا جا سکے ، اس طرح یہودی ایک دوسرے پر الزام لگانے لگے ، اور جھگڑنے لگے ، اللہ نے اپنے رسول موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ ان کو حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کے جسم کے کسی بھی حصے سے گوشت کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے مقتول کو مارو تو وہ زندہ ہو جائے گا۔ غور فرمائیے! کیا ایک مقتول کو زندہ کرنے کے لیے ایک ذبح شدہ گائے کے گوشت سے اس کو مارنے کی کوئی عقلی توجیہ کی جا سکتی ہے؟ نہیں اس کے باوجود یہ واقعہ عقل کے منافی نہیں ہے اگر قرآن پر ایمان نہ رکھنے والا کوئی یہ کہہ کر اس واقعہ کا انکار کر دے کہ عقل اس کو قبول نہیں کرتی تو ہم اس سے پہلے یہ مطالبہ کریں گے کہ جب تم یہ تسلیم کرتے ہو ، کیونکہ تمہارا یہ مشاہدہ ہے کہ ایک بے جان’’ قطرہ منی ‘‘سے ایک ایسا انسان بن سکتا ہے جو گوناگوں صلاحیتوں کا مالک ہے اور جو رحم ماد ر میں کچھ کھائے پئے بغیر اور زندگی کے ہر وسائل سے محروم نو ماہ تک زندہ رہ سکتا ہے تو پھر ایک مکمل انسان مگر مقتول کو دوبارہ زندہ کر دینا اللہ کے لیے مشکل کیوں کہتے ہو؟ جبکہ یہ عدم سے ایک بھرپور انسان کوپیدا کرنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان ہے ۔ اصلاحی صاحب کو یہ دعوی تھا کہ وہ حدیث کے ’’قبول درد‘‘ کے لیے اصول وضع کر سکتے ہیں ، مگر انہوں نے عملا جو کیا وہ یہ کہ ’’علم الروایہ‘‘ کے موضوع پر ایک کتاب لی اور اس میں سے اپنے مطلب کی باتیں لے کر ان کو بیان کر دیا اور ان کو ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ کا نام دیے دیا۔!! اصلاحی صاحب کو یہ اعتراف ہے کہ ’’حدیث میں کوئی بات عقل کے خلاف نہیں ہو سکتی‘‘ اور یہ بھی اعتراف ہے کہ ’’عقل کی رسائی محدود ہے ‘‘ تو پھر اس بحث کو چھیڑنے کی کیا ضرورت تھی اوراگر چھیڑا ہی تھا تو پھر ’’حدیث اور عقل میں منافات‘‘ کو مثالوں سے واضح بھی کرنا تھا ۔ علمائے حدیث نے تمام ضعیف اور موضوع رویات کو صحیح حدیثوں سے الگ کر دیا ہے اور تفسیر، سیرت ، تاریخ اور فقہ و اصول کی کتابوں میں جن حدیثوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی بھی بے لاگ علمی تخریج کرکے ضعیف اور موضوع روایت کو صحیح حدیثوں سے الگ کر دیا ہے اس موضوع پر دسیوں ضخیم کتابیں موجود ہیں جن کے ذریعہ ہزاروں ناقابل اعتبار روایتوں سے واقفیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہی نہیں ، بلکہ علمائے حدیث نے ان تمام اسباب کو بھی بیان کر دیا ہے جو وضع حدیث کے پیچھے کار فرما تھے اور ان تمام راویوں کو ایک ایک کر کے بے نقاب کر دیا ہے جن پر حدیثیں گھڑنے کا الزام تھایا جوروایتِ حدیث میں کسی بھی
Flag Counter