Maktaba Wahhabi

484 - 531
درجے میں ساقط الاعتبار تھے۔ جن اسباب سے ایک روایت ناقابل اعتبار ہو جاتی ہے ،ان میں سے اس کا قرآن کی نص کے خلاف ہونا، صحیح حدیث یا احادیث سے اس کا متعارض ہونا اورصریح عقل کے خلاف ہونا بھی ہے ، مگر یہ آخری سبب معتزلہ کے دعوی کے مطابق علی الاطلاق نہیں ہے ، کیونکہ یہ معلوم ہے کہ معتزلہ اور متکلمین نے عقل کو غیر معمولی اہمیت دے کر اس کو شرعی نصوص پر حاکم بنا دیا ہے ، اس طرح انہوں نے بعض صحیح حدیثوں کو یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ یہ عقل کے خلاف ہیں یا اس سے متصادم ہیں ۔ امین احسن اصلاحی کا نشانہ دراصل وہ صحیح احادیث ہیں جو عدالت و ضبط سے موصوف راویوں سے مروی ہیں اور ہر طرح کی علت اور شذوذ سے پاک ہیں ، خاص طور پر جو احادیث صحیحین میں مروی ہیں اور وہ ان کا ہدف رہی ہیں ، انہوں نے حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لیے ’’اساسی کسوٹیاں ‘‘کے نام سے جو باب قائم کیا ہے وہ تمام تر خطیب بغدادی کی کتاب الکفایہ سے ماخوذ ہے چونکہ اس کا تعلق بنیادی طور پر ’’خبر واحد‘‘ سے ہے اس لیے یہ بحث اپنے مقام پر آئے گی ، میں یہاں اپنے موضوع کے اندر رہتے ہوئے عقل اور حدیث میں مطابقت یا منافات کی بحث جاری رکھتے ہوئے عرض گزار ہوں : حدیث اور قرآن اور حدیث اور عقل میں کوئی منافات نہیں : امین احسن اصلاحی نے صفحہ ۲۲ پر یہ عنوان قائم کیا ہے : وہ روایات جن کا حق اور لائق قبول ہونا واضح ہے ‘‘ اور اس کے تحت درج ذیل قسم کی روایات کا ذکر کیا ہے : ا:… عقل جن کی صحت کو گواہی دیتی ہے (مماتدل العقول علی موجبہ) اور جن کو عقل عام ( Common Sense ) قبول کرتی ہو۔ ب:… جن کا تقاضا نصوص قرآن یا نصوص سنت کرتے ہوں ۔ ج:… جن کو امت نے قبول کیا ہو۔ اس کے بعد صفحہ ۲۳ پر یہ عنوان قائم کیا ہے : وہ روایات جن کا باطل ہونا واضح ہے : اس کے تحت انہوں نے درج ذیل روایتوں کو رکھا ہے : ا:… جن کو عقل رد کرتی ہو۔ ب:… جو نصوص قرآن اور نصوص سنت متواتر کے منافی یا اس سے متعارض ہوں ۔ ج:… جو ایسے امور سے متعلق ہوں جن میں لوگ بدیہی اور قطعی علم کے محتاج ہوں ، تاکہ ان پر حجت تمام ہو سکے، لیکن اس طرح کا علم ان سے حاصل نہ ہو رہا ہو۔
Flag Counter