Maktaba Wahhabi

486 - 531
اصلاحی صاحب نے اپنی بحث کی بنیاد بنایا ہے اور اس کو اس حیثیت سے پیش کیا ہے گویا وہ وحی الٰہی ہو ۔ حافظ بغدادی فرماتے ہیں : ’’خبر واحد عقل کے فیصلے کے خلاف ، قرآن کے ثابت اور محکم حکم کے خلاف‘ معروف سنت اور سنت کی مانند معمول بہ عمل کے خلاف اور قطعی دلیل کے خلاف ہونے کی صورت میں قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘[1] اس قول میں صحیح اور غلط باتیں خلط ملط ہو گئی ہیں ، اور اس میں خبرواحد کے عقل کے فیصلے کے خلاف ہونے کی صورت میں رد کر دی جانے کی جو بات کہی گئی ہے وہ معتزلہ کا نظریہ ہے ، بقیہ باتوں کا جواب ان شاء اللہ حدیث اور فقہا کی فصل میں دیا جائے گا بغدادی نے خبر واحد کے قابل قبول ہونے کے لیے جو یہ شرط عائد کی ہے کہ وہ عقل کے خلاف نہ ہو وہ مردود ہے ، کیونکہ جو اخبار احاد محدثین کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق ہیں اور ثابت ہیں وہ علمی اور عملی تمام امورمیں اپنی ذاتی قوت سے دلیل اور حجت ہیں تمام صحابہ، تابعین اور تبع تابعین اور تمام آئمہ حدیث کا یہی مسلک رہا ہے ، دین کے عقائدی ابواب ، قضاو قدر اور اللہ تعالیٰ کے اسماء او رصفات سے لے کر عملی احکام تک ہر ایک میں ان کو حجت و دلیل مانا جاتا رہا ہے ، کسی بھی امام حدیث یا صحابی اور تابعی سے یہ منقول نہیں ہے کہ اس نے دین کے کسی بھی باب میں خبر واحد اور غیر خبر واحد میں تفریق کی ہو ۔ یہ تو معتزلہ اور جہمیہ وغیرہ کا نظریہ ہے عقائد کے باب میں خبرواحد کے حجت نہ ہونے کی تردید اپنے مقام پر آرہی ہے اس لیے یہاں اسی پر بس کرتا ہوں ۔ اصلاحی صاحب نے قرآن و حدیث اور عقل و حدیث میں منافات کی پہلی مثال یہ دی ہے کہ دوزخ میں آگ پانی اور درخت تینوں ہوں گے جو عقل کے خلاف ہے ، لیکن یہ عقل کی نارسائی ہے اس لیے ناقابل التفات ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی ’’عقل ہر صورت میں دلیل قطعی نہیں ہے ‘‘ دوسری مثال انہوں نے قرآن پاک کی درج ذیل آیت کی دی ہے ، مگر صرف ترجمہ پر اکتفا کیا ہے : ﴿اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ ، مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ ، ﴾ (القلم:۳۵،۳۶) ’’کیا ہم فرماں برداروں کو نافرمانوں کی طرح کر دیں گے ، تمہیں کیا ہوا تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟‘‘ انہوں نے بقول اپنے نیکو کاروں اور گنہگاروں کو یکساں کر دینے کو عقل کے منافی قرار دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کے بھی منافی ہے یہاں تک ان کی بات میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے جو ہرزہ سرائی کی ہے وہ ہے ٹیپ کا بند جس سے حدیث سے ان کی نفرت کا اظہار ہوتا ہے ، ا نہوں نے مفہوم تو حدیث ہی کا بیان کیا ہے ، مگر حدیث کا لفظ زبان پر نہیں لائے ہیں ، ذرا تیور ملاحظہ ہو ، فرماتے ہیں : ’’عقل کے بعض دشمن یہاں تک کہتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ اگر تمام نیکوں کو جہنم میں جھونک دے تو یہ بھی ٹھیک
Flag Counter