Maktaba Wahhabi

49 - 531
تھے، بلکہ یہ احکام الٰہی کی تفسیر و تشریح اور بیان سے عبارت ہیں جو آپ اپنی حیات پاک میں حسب ضرورت بیان فرماتے رہے تھے، حدیث بھی اگرچہ وحی الٰہی ہی ہے، مگر یہ قرآن کی طرح الفاظ و معانی کے ساتھ جبریل علیہ السلام کے ذریعہ آپ پر نازل نہیں ہوتی تھی، بلکہ اولاً تو حدیث کے معانی اللہ کی طرف سے ہوتے تھے اور تعبیر آپ کی ہوتی تھی ثانیاً بذریعہ خواب یا آپ کے قلب مبارک میں بذریعہ فرشتہ کوئی بات ڈال کر بھی آپ کو احکام دیے جاتے تھے۔ یہ تو قولی حدیث کی صورت تھی، رہی آپ کی فعلی حدیث یا سنت تو یہ تمام تر صحابہ کرام کی ان کے اپنے الفاظ میں بیان کردہ ہے حدیث کی یہ دونوں صورتیں مزید آپ کی تقریریں اور تصویبات سب کا شمار سنت یا حدیث میں ہوتا ہے اور قرآن کی طرح وہ سب بھی محفوظ ہیں اور ان کا ایک معمولی سا بھی حصہ ضائع نہیں ہوا ہے ورنہ ارشاد الٰہی: ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ ناممکن قرار پائے گا اور یہ لازم آئے گا کہ اللہ نے ایک ایسا حکم دیا ہے جس کے ایک حصے پر تو عمل کیا جاسکتا ہے، مگر دوسرے حصے پر نہیں کیا جاسکتا اور اللہ کے بارے میں ایسا تصور بھی کفر ہے۔ قرآن کی حفاظت کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے اور نہایت تاکیدی الفاظ میں کیا ہے، مگر امر واقعہ یہ ہے کہ اپنی توفیق و عنایت سے اس نے یہ کام اپنے بندوں ہی سے لیا ہے اور اب تک لے رہا ہے اور قیامت تک لیتا رہے گا، ٹھیک اسی طرح اس نے اپنے آخری نبی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حدیث کا کام بھی اپنے اسی طرح کے بندوں سے لیا ہے جن سے اس نے اپنی کتاب کی حفاظت کا کام لیا ہے اور اس کے ان بندوں نے جس طرح قرآن پاک کو اپنے سینوں میں محفوظ کرکے اور اس کی زبانی روایت کرکے اس کی حفاظت کی بالکل اسی طرح انھوں نے حدیث کو بھی اپنے سینوں میں محفوظ کرکے اور نہایت وسیع پیمانے پر اور حد درجہ امانت داری کے ساتھ روایت کرکے اس کی حفاظت کی۔ قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں آپ کے حکم سے لکھ تو لیا جاتا تھا، لیکن نہ تو یہ مرتب شکل میں یکجا تھا اور نہ اس کے نسخے اتنے تھے کہ لوگ اس سے رجوع کرتے، بلکہ صرف ایک نسخہ تھا اور وہ بھی متفرق اجزاء کی شکل میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی قرآن کا جو نسخہ تیار کرایا تھا وہ لوگوں کی دسترس اور اطلاع سے باہر تھا اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے نسخے قریش کے لب و لہجہ میں تیار کراکے بلاد اسلامیہ میں پھیلائے تو یہ بھی صرف چند نسخے تھے جن کو قرائتوں میں اختلاف کی صورت میں مرجع ہونے کی حیثیت حاصل تھی، مگر یہ تلاوت کے لیے نہ تھے اور نہ قراء حفظ قرآن میں ان سے رجوع ہی کرتے تھے، سارا مدار سینوں میں محفوظ قرآن ہی پر رہا، لیکن بایں ہمہ اس کے الفاظ اور ترتیب میں معمولی سی تبدیلی بھی نہیں ہوئی۔ قرآن کی حفاظت مسلمانوں نے جس اہتمام سے کی، اس سے کچھ کم اہتمام انھوں نے حدیث کی حفاظت کے لیے نہ کیا، بلکہ واقعات کی گواہی یہ ہے کہ حدیث کی حفاظت میں انھوں نے زیادہ اہتمام برتا اور حدیث کے اتنے حفاظ پیدا
Flag Counter