Maktaba Wahhabi

50 - 531
ہوئے کہ حفاظ کا اطلاق صرف حدیث کے حفاظ پر ہونے لگا اور یہ اصطلاح محدثین کے لیے خاص ہوگئی، جبکہ حفاظ قرآن ’’قراء‘‘ ہی رہے۔ تاریخ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سننے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ رہتی تھی اور اس کو لوگوں میں پھیلانے اور عام کرنے کا جذبہ بھی قرآن کو پھیلانے اور عام کرنے کے جذبے سے کم نہ تھا اور عصر صحابہ سے لے کر عصر تدوین تک حدیث کے درس و تحصیل کی گونج سے اس وقت کے شہر اور قصبے گونج رہے تھے اور قرآن کے پہلو بہ پہلو حدیث کے حفظ و روایت کی مجلسوں سے عالم اسلام کے شہروں اور قصبوں کی گلیاں اور کوچے آباد تھے۔ حدیث کو ضبط تحریر میں لانے کا سلسلہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں شروع ہوگیا تھا جس میں مرور ایام کے ساتھ ترقی ہوتی رہی، لیکن جس طرح قرآن کو ضبط تحریر میں تلاوت کی غرض سے نہیں لایا جاتا تھا، بلکہ احتیاط مزید کے طور پر لایا جاتا تھا، اسی طرح جو صحابہ کرام، پھر تابعین اور تبع تابعین اپنی مسموعات کو ضبط تحریر میں لاتے تھے احتیاط مزید کے طور پر لاتے تھے، ورنہ ان کا سارا مدار سینوں میں محفوظ حدیثوں پر ہی ہوتا تھا۔ مذکورہ وضاحتوں سے یہ دعویٰ ڈھول کا پول ثابت ہوتا ہے کہ قرآن پاک کے قطعی الثبوت ہونے اور کسی تحریف و تبدیلی اور کمی بیشی سے پاک ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ نقل ہوتا آیا ہے اور وہ مدون بھی ہے۔ اولاً تو تواتر کی تعریف پر دو اہل علم کا بھی اتفاق نہیں ہے۔ ثانیاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن کی ہر ہر آیت اور ہر ہر سورت سننے والوں اور پھر ان کی روایت کرنے والوں کی اتنی تعداد ثابت کرنا جس پر تواتر کا اطلاق درست ہو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ثالثاً حضرت ابوبکر اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہما نے قرآن پاک کے جو نسخے تیار کرائے تھے ان کی تفصیل اوپر گزرچکی ان معدودے چند نسخوں کو قرآن کی تدوین قرار دے کر اس کی بنیاد پر قرآن کو قطعی الثبوت قرار دینا محض ہٹ دھرمی ہے۔ دراصل قرآن پاک کے ہر تحریف و تبدیلی، ہر حذف و اضافے اور ہر ملاوٹ سے محفوظ رہنے کا سبب اس کا اعجاز ہے اور کسی بھی انسان کی قدرت میں اس کے نزول کے پہلے روز سے نہ یہ بات تھی اور نہ قیامت تک ہوگی کہ وہ قرآن کی کسی چھوٹی سی سورت کے مانند کوئی سورت گھڑ سکے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو رسول ہونے کے علاوہ افصح العرب تھے قرآن جیسا کلام تالیف کرنے سے عاجز تھے۔ لیکن حدیث کو اعجازی شان حاصل نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افصح العرب اور ابلغ العرب ہونے کی وجہ سے حدیث کا اسلوب اور انداز بیان بلاشبہ اپنی ایک انفرادیت اور امتیازی شان رکھتا ہے اور صحیح احادیث سے ایک خاص خوشبو پھوٹتی ہے، مگر بایں ہمہ چونکہ آپ بشر تھے اس لیے بشریت کی چھاپ حدیث پر موجود ہے جس کی نقالی اور محاکات انسانوں کے لیے محال نہیں ہے اس تناظر میں عصر تابعین میں محدود پیمانے پر اور بعد کے زمانوں میں وسیع
Flag Counter