Maktaba Wahhabi

510 - 531
یہاں جملہ معترضہ کے طورپر یہ واضح کر دینا مناسب خیال کرتا ہوں کہ متکلمین اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے فقہاء اور صوفیا شرعی نصوص کی تاویل کے متعدد معنوں میں سے صرف وہ معنی مراد لیتے ہیں جو کسی لفظ کو اس کے ظاہری لغوی مفہوم سے نکال کر مجازی معنی مراد لینے سے عبارت ہے ان کے ایسا کرنے کے پیچھے جو محرک کار فرما ہے وہ ان کا یہ زعم باطل ہے کہ شرعی نصوص کو ان کے حقیقی معنوں میں لینے سے تضاد لازم آتا ہے اور وہ عقل سے بھی متصادم ہوتی ہیں ۔ واضح رہے کہ تاویل مطلقا مذموم نہیں ہے ، بلکہ جو تاویل تفسیر کے معنی میں ہو، کسی چیز کے انجام کے معنی میں یا کسی حکم پر عمل کرنے کے معنی میں یا جس تاویل کی لفظی یا شرعی دلیل ہو تو ایسی تاویل مذموم و مردود نہیں ہے ، مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿اتی امر اللّٰہ فلا تستعجلوہ ﴾ (النحل : ۱)آگیا اللہ کا حکم لہٰذا اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ ۔ تو اس آیت مبارکہ میں ’’ اتی ، سیأتی ‘‘ کے معنی میں ہے جس کی دلیل اس کے بعد کے فقرہ : فلا تستعجلوا ہے اور مستقبل کے بجائے ماضی کا صیغہ اس کے یقینی ہونے کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو بلاغت کلام کا تقاضا ہے ،کیونکہ فعل ماضی کسی چیز کے وقوع پا جانے کے بیان کے لیے استعمال کیا جا تا ہے اور اللہ کا فیصلہ اس قدر یقینی ہے کہ گویا وہ واقع ہو گیا ۔ لیکن کسی آیت یا حدیث کی ایسی تاویل جو کوئی لفظی یا شرعی دلیل نہ رکھتی ہو یا جو تاویل کے مقبول معنوں میں نہ ہو وہ مذموم و مردود ہے جیسے : ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ ’’رحمن عرش پر بلند ہوا ، میں استوی کو ’’استولی ‘‘ کے معنی میں لینا ، یعنی رحمن عرش پر غالب ہوا ، تو استوی کے اس دوسرے معنی کی دلیل نہ تو لغت میں ہے اور نہ قرآن و حدیث کی نصوص میں ، یہ تعبیر قرآن میں سات مرتبہ آئی ہے ، اگر ’’استوی ‘‘ سے مراد ’’استولی ‘‘ ہوتا تو ایک ہی بار اس کا استعمال عقل کا تقاضا تھا ۔ اس جملہ معترضہ کے بعد میں متکلمین اور ان کے زلہ برداروں کی اس فہم و نظر کے چند نمونے پیش کرنا چاہتا ہوں جو ان کو قرآنی آیتوں اور تعبیرات سے متعلق حاصل ہے ۔ ڈاکٹر رمضان بوطی ، معتزلہ ، متکلمین ، صوفیا او راہل باطن کے نمائندے اور وکیل ہیں ، موصوف بڑے زبان دراز اور اسلاف اور محدثین کے سخت دشمن ہیں ، اور غلط بیانیوں میں اپنا کوئی نظیر نہیں رکھتے وہ مذموم اور مردود تاویل کو شرعی فرض قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : آیات صفات کو ان کے ظاہری مفہوم میں لینا اور ان کی کوئی تاویل نہ کرنا چاہے یہ اجمالی ہو یا تفصیلی ناجائز ہے جس کی طرف سلف اور خلف میں سے کسی کا بھی میلان نہیں تھا۔ کیونکہ اگر تم ان آیتوں کی تاویل نہ کرو اور ان کو ان کے ظاہری مفہوم سے نہ پھیرو، تو تم اپنی عقل پر ان صفات سے
Flag Counter