Maktaba Wahhabi

511 - 531
متعلق بیحد متضاد معانی اور مفاہیم کا بوجھ ڈال دو گے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ ’’عین ‘‘ کی اضافت اپنی ذات کی طرف واحد کے صیغے میں کی ہے : ﴿ولتصنع علی عینی ﴾ (طہ :۳۹) ’’اور تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے ہو۔‘‘ تو دوسری جگہ جمع کے صیغے میں : ﴿وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا﴾ (طور:۴۸) ’’اور اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو درحقیقت تم ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔‘‘ اگر تم نے ان دونوں آیتوں کی تفسیر ان کے ظاہری الفاظ کے مطابق کی تو تم قرآن پر تضاد بیانی کا الزام لگانے والوں میں شامل ہو جاؤ گے جس سے قرآن پاک ہے ۔ پھر تم اس ارشاد الٰہی کو پڑھو : ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾(طہ :۵) ’’رحمن عرش پر بلند ہوا ۔‘‘ اس کے بعد : ﴿وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ (ق : ۱۶) ’’اور ہم اس کی رگ و جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔‘‘ اگرتم نے ان دونوں آیتوں میں کوئی اجمالی تاویل کرنے کے بجائے محض ان کے الفاظ سے متبادر ہونے والے مفہوم کے مطابق ان کی تفسیر کی تو تم نے کتاب اللہ پر تضاد بیانی کا الزام لگایا۔ اس لیے کہ اللہ ، کسی تاویل کے بغیر عرش پر بلند ہونے کے ساتھ ہی رگ جان سے زیادہ انسان کے قریب کس طرح ہو سکتا ہے ؟ بوطی نے تاویل کو درست ثابت کرنے کے لیے قرآن پاک کی جن آیتوں سے استدلال کیا ہے اور ان کو حقیقی معنوں میں لینے کی صورت میں قرآن میں تضاد اور تناقض دکھانے کی جو کوشش کی ہے وہ ریت کی دیوار سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی جس کی تفصیل حسب ذیل ہے :سورہ طہ کی آیت : ﴿ ولتصنع علی عینی ﴾ میں عینی یائے متکلم کی طرف مضاف ہے اوراس طرح کی ترکیب میں عینی سے ایک آنکھ مراد نہیں ہوتی ، بلکہ عموم مراد ہوتا ہے ، لہٰذا عینی سے مراد اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت دو آنکھیں ہیں نہ کہ ایک عربی میں اس طرح کے محاورے عام ہیں : انت علی عینی تم میری آنکھ کی حفاظت میں ہو یا میری نگاہ میں تمہاری بڑی وقعت اور عزت ہے ۔ یہ بھی کہتے ہیں : اجیئک علی عینی میں تمہارے پاس اپنی آنکھوں پر چل کر آؤں گا یا احملک علی عینی میں تمہیں اپنی آنکھوں پر اٹھاؤں گا ان تمام تعبیرات میں عین یائے متکلم کی طرف مضاف ہے جس سے کہنے والے کی دونوں آنکھیں مراد ہیں یہ نہیں مراد ہے کہ
Flag Counter