Maktaba Wahhabi

512 - 531
میرے پاس صرف ایک آنکھ ہے ۔ ایک عرب جاہلی شاعرابو ذؤیب ہذلی نے تو اضافت کے بغیر ’’العین‘‘ بول کر اپنی دونوں آنکھیں مراد لی ہیں طاعون کی بیماری میں اپنے پانچ بیٹوں کی وفات پر اس نے ان پر جو مرثیہ کہا ہے اس کا ایک مصرعہ ہے : ((العین بعد ھمو کان حداقھا)) ’’ان کے بعد آنکھیں ایسی ہو گئیں ہیں جیسے ان کے ڈھیلے ‘‘ اس مصرعہ میں حداق حدقۃ کی جمع ہے ہر آنکھ میں ایک حدقہ یعنی ڈھیلا ہوتا ہے اور دونوں میں دو اس طرح اس کو حدقہ کا تثنیہ ’’حدقتین‘‘ لانا چاہیے تھا لیکن وہ حدقتین کے بجائے ’’حداق‘‘ لایا ہے جو جمع ہے اور مراد حدقتین ہی لیا ہے ۔معلوم ہوا کہ عربی زبان میں جمع کی کم سے کم تعداد دو ہوتی ہے اور جسم کے جو اعضاء صرف دو ہوتے ہیں اور دو سے زیادہ ہونے کا احتمال نہیں ہوتا ان کے لیے جمع کا صیغہ لانا عام ہے ۔[1] بوطی نے دوسری جس آیت سے اپنے فاسد عقیدہ پر استدلال کیا ہے وہ سورہ طور کی آیت ﴿ وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا﴾ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جمع متکلم کی ضمیر استعمال کی ہے جو ضمیر تعظیمی ہے اور عین کی جمع ’’اعین ‘‘ اس کی طرف مضاف کی ہے اور ایسا جمع متکلم کی ضمیر کی مناسبت سے کیا ہے اور مراد صرف دو آنکھیں لی ہیں ، اوپر میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ جسم کے جو اعضاء دو ہیں جمع متکلم کی ضمیر کی طرف اضافت کی صورت میں ان کو جمع کے صیغے میں لانا فصیح ترین عربی اسلوب ہے جس کی خود قرآن پاک میں متعدد مثالیں موجود ہیں ، ملاحظہ ہوں آیات : سورۃ ہود ۳۷، قمر ۱۴ ، یٰس ۷۱۔ قرآن پاک میں آیات صفات کے علاوہ بھی ایسی آیات ہیں جن میں جمع تثنیہ یعنی دو کے معنی میں استعمال کی گئی ہے ، مثال کے طور پر سورۃ تحریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿اِِنْ تَتُوْبَا اِِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا﴾(۴) ’’اگرتم دونوں اللہ کی طرف رجوع کرو تودرحقیقت تمہارے دل سیدھی راہ سے مائل ہو چکے ہیں ۔‘‘ دو عورتوں یا مردوں کے سینوں میں صرف دو دل ہوتے ہیں اس طرح ’’قلباکما‘‘ کہنے کا محل تھا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے قلب کی جمع ’’قلوب‘‘ استعمال کی ہے اور مراد دو دل لیے ہیں اور قرآن کی زبان ’’عربی مبین‘‘ ہے ۔ سورۃ الانبیاء میں ارشاد الٰہی ہے : ﴿وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْکُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَ کُنَّا لِحُکْمِہِمْ شٰہِدِیْن﴾ (۷۸)
Flag Counter