Maktaba Wahhabi

60 - 531
غزوہ میں شریک ہوا یا نہیں ؟ اس تعریف کی رو سے وہ خوش نصیب بھی صحابی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے اور آپ پر ایمان لانے کی سعادت سے مشرف ہوا، مگر بینائی سے محروم ہونے کی وجہ سے آپ کے رخ انور کو نہ دیکھ سکا یا آپ کو دیکھا اور فوراً چلا گیا اور دوبارہ ملاقات کا موقع نہ پاسکا، یا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت کمسنی میں شعور کی آنکھیں کھولنے سے پہلے دیکھا، تو وہ اپنے دیکھنے کی وجہ سے تو صحابی نہیں ہے، البتہ اس اعتبار سے اس کو شرف صحابیت حاصل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا، لیکن روایت حدیث میں یہ تابعی شمار ہوگا۔‘‘[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کتاب فضائل الصحابہ، باب فضائل اصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ومن صحب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، او راہ من المسلمین؛ فہو من أصحابہ…کتاب فضائلِ صحابہ، اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور مسلمانوں میں سے اس کے فضائل جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت حاصل ہوئی اور اس نے آپ کو دیکھا: اس کا شمار بھی آپ کے صحابہ میں ہوتا ہے‘‘ کے تحت حدیث نمبر ۳۶۴۹ کی شرح کرتے ہوئے صحابی کی تعریف میں متعدد علمائے حدیث کی آراء نقل کرنے اور امام بخاری کے قائم کردہ باب کی وضاحت کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’شرف صحابیت سے متعلق مذکورہ بالا تمام احکام اس شخص کے حق میں ہیں جس نے اپنی دنیوی زندگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو؛ رہا وہ جس نے آپ کو آپ کی وفات کے بعد آپ کے دفن سے پہلے دیکھا ہے تو راجح بات یہی ہے کہ وہ صحابی نہیں ہے، ورنہ جس نے ان زمانوں میں آپ کے جسد مطہر کو آپ کی قبر مبارک میں ازراہ اتفاق دیکھ لیا یا اولیاء میں سے جس کسی کو آپ کا کشف حاصل ہوگیا اور بطور کرامت اس کو آپ کی یہ رؤیت حاصل ہوگئی وہ بھی صحابہ میں شمار ہوگا، کیونکہ جو لوگ اس شخص کے حق میں بھی شرف صحابیت کے قائل ہیں جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے دفن کیے جانے سے پہلے دیکھا ہو ان کی دلیل یہ ہے کہ آپ کی زندگی برقرار ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کو جو زندگی حاصل ہے وہ دنیوی نہیں ، بلکہ اخروی زندگی ہے جس پر دنیا کے احکام نہیں لگائے جاسکتے، جس طرح کہ شہداء زندہ ہیں ، مگر قتل کردیے جانے کے بعد ان پر دوسرے مردوں ہی کے احکام جاری ہوتے ہیں ۔ اسی طرح جس رؤیت سے شرفِ صحابیت ثابت ہوتا ہے وہ حالت بیداری کی رؤیت ہے، رہا وہ جس نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو اگرچہ یہ رؤیت حق ہے، تو اس کا تعلق یا شمار بھی معنوی امور سے ہے نہ کہ دینوی احکام سے، لہٰذا ایسا شخص نہ تو صحابی قرار دیا جائے گا اور نہ اس حالت میں اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے گئے کسی حکم پر عمل کرنا ہی فرض ہوگا۔ (ایضاً) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے زمانے میں تصوف اور صوفیانہ افکار و عقائد کا جو زور تھا وہ محتاجِ بیان نہیں ہے، شیخ الاسلام اور امام المجددین امام ابن تیمیہ متوفی ۷۲۸ھ اور ان کے شاگرد رشید امام ابوعبد اللہ محمد بن ابی بکر المدعو بابن قیم الجوزیہ متوفی
Flag Counter