Maktaba Wahhabi

61 - 531
۷۵۱ھ نے صوفیا اور متکلمین کے باطل افکار و عقائد کی جگہ کتاب و سنت سے ماخوذ عقیدۂ توحید کو عام کرنے کے لیے نصف صدی سے زیادہ مدت پر پھیلی ہوئی جو مسلسل اور پیہم جدوجہد کی تھی اس کے ثمرات عقائد و اعمال میں اگرچہ ہرسو دیکھے جانے لگے تھے اور دین توحید کی روشنی سے شرک کی تاریکیاں بڑی حد تک چھٹ گئی تھیں ، لیکن اس راہ میں ان دونوں جانباز داعیانِ حق کو جن صبر آزما اور حوصلہ شکن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ان کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بلاشبہ علم حدیث کے امام الائمہ تھے، لیکن جس ماحول میں وہ پیدا ہوئے، شعور کی آنکھیں کھولیں اور علمی خدمات انجام دیں اس پر جہاں تصوف کی غیر اسلامی روحانیت کا غلبہ تھا وہیں اس کو ’’الکلام‘‘ کی ’’عقلیت‘‘ نے اپنے پنجے میں جکڑ رکھا تھا، ایسے ماحول میں اسلامی عقائد بیان کرتے ہوئے تحفظات سے دامن بچانا ممکن نہ تھا، لہٰذا انھوں نے فتح الباری اور اپنی دوسری کتابوں میں تصوف اور ارباب سلوک اور متکلمین کے افکار و عقائد کے رد میں جس سہل پسندی سے کام لیا ہے اس میں وہ معذور تھے اور دو ٹوک اور ڈنکے کی چوٹ اعلانِ حق نہ کرنا ان کی مجبوری تھی، اس لیے ان کی مذکورہ بالا تحریر کو اسی تناظر میں رکھ کر پڑھنا چاہیے۔ اب سابقہ سلسلۂ کلام پر واپس آتے ہوئے عرض ہے کہ سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابی حضرت ابوطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ ہیں جن کی وفات ۱۱۰ھ مطابق ۷۲۸ء میں ہوئی۔[1] حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے پہلے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے وفات پائی جن کی وفات ۹۲ ہجری مطابق ۷۱۱ء میں ہوئی۔[2] میں نے یہ دو مثالیں یہ دکھانے کے لیے دی ہیں کہ پہلی صدی ہجری کے اختتام اور دوسری صدی ہجری کے آغاز تک بعض صحابہ کرام زندہ تھے، رہا ۵۰ھ مطابق ۶۷۰ء سے ۷۰ھ مطابق ۶۸۹ء تک کا زمانہ تو اس میں بکثرت صحابہ کرام زندہ تھے اور تابعین ان سے کسب فیض کر رہے تھے اور ان سے اسی طرح حدیث کا علم حاصل کر رہے تھے جس طرح ان کی زبانوں سے قرآن حاصل کر رہے تھے اور چونکہ خلفائے راشدین کے زمانے ہی میں کثیر تعداد میں تابعین پیدا ہوچکے تھے، خصوصیت کے ساتھ حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مدینہ منورہ اور دوسرے اسلامی شہروں ، مثلاً: مکہ، کوفہ اور بصرہ نیز مصر میں سیکڑوں نہیں ، ہزاروں تابعین موجود تھے جو صحابہ کرام سے حدیث اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اور غزوات و سرایا کا علم حاصل کرکے دوسروں میں منتقل کر رہے تھے اس لیے یہ معلوم ہوا کہ راویان حدیث کا ایک طبقہ دوسرے طبقہ میں پیوست تھا اور ان کے درمیان کوئی خلا یا گیپ نہیں تھا جیسا کہ مستشرقین اور منکرین حدیث کا دعویٰ ہے اور روایت قرآن کے ساتھ ساتھ روایت حدیث کا سلسلہ بھی مساوی طور پر جاری تھا اس
Flag Counter