Maktaba Wahhabi

99 - 531
ام المومنین رضی اللہ عنہا نے یتحنث ہی فرمایا تھا اور اس کی تفسیر ’’وہو التعبد‘‘ کسی راوی کا ادراج ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ حدیث میں مدرج ہے، جو زہری کی تفسیر ہے، جیسا کہ طیبی نے وثوق سے دعویٰ کیا ہے، لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں دی ہے۔‘‘[1] یہی حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کتاب التفسیر میں بھی لائے ہیں ، جہاں انھوں نے پہلے حدیث نمبر ۳ کی سند درج کی ہے، اس کے بعد ’’وحدثنی سعید بن مروان‘‘ کہہ کر اس کی دوسری سند بیان کی ہے (نمبر ۴۹۵۳) واضح رہے کہ امام بخاری یہی حدیث تیسری سند سے کتاب التعبیر میں بھی لائے ہیں (۶۹۸۲) اور وہاں بھی پہلے حدیث نمبر ۳ کا ذکر کیا ہے، پھر وحدثنی عبد اللّٰه بن محمد کہہ کر اس کی تیسری سند بیان کی ہے جس پر بحث ادراج کی دوسری مثال کے ضمن میں آرہی ہے۔ یہاں بھی ام المومنین نے ’’یتحنث‘‘ کی تعبیر استعمال کی ہے جس کے بعد آیا ہے: قال: والتحنث التعبد، کہا: تحنت تعبد کے معنی میں ہے‘‘ قال کا فاعل سند کے راویوں میں سے کوئی ہے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نہیں ہیں ، ورنہ ’’قالت‘‘ آتا۔ حافظ ابن حجر تحریر فرماتے ہیں : ’’التحنث التعبد‘‘ ادراج کے مسئلے میں ظاہر ہے، کیونکہ اگر یہ عائشہ کے کلام کا حصہ ہوتا، تو ’’قالت‘‘ ہوتا، ممکن ہے کہ یہ عروہ کے کلام کا حصہ ہو یا ان کے نیچے کے کسی راوی کے کلام کا‘‘ اس کے بعد ابن حجر نے ’’التعبد‘‘ کی تشریح کی ہے جو میرے موضوع بحث سے خارج ہے۔ [2] مذکورہ بالا وضاحت کا حاصل یہ ہے کہ: (۱)… اولاً یہ طے نہیں ہے کہ یہ ادراج امام زہری نے کیا ہے، کیونکہ جس طرح اس کی نسبت ان کی طرف کی جاسکتی ہے اسی طرح عروہ کی طرف بھی کی جاسکتی ہے، بلکہ ان کی طرف اس کی نسبت زیادہ قوی ہے، اس لیے کہ ام المومنین سے اس کے وہی راوی ہیں اور یہ ام المومنین کے ’’یتحنث‘‘ فرمانے کے متصلاً بعد آیا ہے، لہٰذا امام زہری کو اس کا ملزم قرار دینا سراسر ہٹ دھرمی اور بدنیتی ہے۔ (۲)… ثانیاً یہ ادراج جس نے بھی کیا ہو اس کا محل وقوع اور اسلوب بیان اس امر پر بصراحت دلالت کرتا ہے کہ یہ ’’تدلیس‘‘ کے قبیل سے نہیں ، بلکہ توضیح و تفسیر کے قبیل سے ہے اور حدیث کی عبارت پڑھنے والا یہ محسوس کرسکتا ہے کہ یہ ٹکڑا: ’’وہو التعبد‘‘ یا ’’التحنث التعبد‘‘ حدیث کے راوی کا قول ہے حدیث کی عبارت کا حصہ نہیں ہے۔‘‘
Flag Counter