Maktaba Wahhabi

108 - 503
چھڑانے کے لیے آگے بڑھا تو انہوں نے اسے بھی مارنا شروع کر دیا۔ سعید بن العاص نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو وہ پھر بھی مار پیٹ سے باز نہ آئے۔ حتی کہ شدید زد و کوب کی وجہ سے دونوں باپ بیٹا بے ہوش ہو گئے۔ ادھر سے بنو اسد اپنے آدمیوں کا بدلہ لینے کے لیے آن پہنچے۔ قریب تھا کہ فریقین میں لڑائی شروع ہو جاتی مگر سعید نے معاملہ رفع دفع کرا دیا۔ جب اس واقعہ کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو علم ہوا تو انہوں نے سعید بن العاص سے کہا کہ وہ اس معاملہ کو حکمت کے ساتھ نمٹائیں اور جس طرح بھی ممکن ہو فتنہ کو دبانے کی کوشش کریں۔ واقعہ کے بعد خوارج اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور خلیفۃ المسلمین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، والی کوفہ سعید بن العاص اور کوفہ کے سر کردہ لوگوں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈہ کی زوردار مہم شروع کر دی۔ اہل کوفہ نے ان سے تنگ آ کر سعید بن العاص سے انہیں سزا دینے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے روک رکھا ہے۔ اگر تمہارا یہ ارادہ ہے تو اس سے انہیں مطلع کر دو۔ اس پر کوفہ کے معززین اور صلح جو لوگوں نے اس گروہ کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھ کر ان سے مطالبہ کیا کہ انہیں شہر سے نکال دیا جائے اس لیے کہ یہ فسادی اور تخریب کار لوگ ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے مطالبہ پر سعید بن العاص کو حکم دیا کہ وہ ان لوگوں کو کوفہ سے نکال دیں۔ ان کی تعداد دس سے کچھ زائد تھی۔ سعید نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم پر انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیج دیا۔ ادھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کے بارے میں ایک خط کے ذریعہ سے فرمایا: اہل کوفہ نے کچھ فتنہ پرداز لوگوں کو اپنے شہر سے نکال کر تمہارے پس بھجوایا ہے، آپ ان پر دباؤ ڈال کر ان کی اصلاح کی کوشش کریں اور اگر ان میں اچھائی محسوس کریں تو ان کی معذرت قبول کر لیں۔[1] جن لوگوں کو شام جلاوطن کیا گیا تھا ان میں اشتر نخعی، جندب ازدی، صعصعہ بن صحوان، سہیل بن زیاد، عمیر بن صنابی، اور ابن الکوّاء بھی شامل تھے۔[2] جب یہ لوگ شام پہنچے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خوش آمدید کہا۔ ان کی خوب مہمان نوازی کی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے انہیں وہی روزینہ اور سہولتیں فراہم کیں جو انہیں عراق میں فراہم کی جاتی تھیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی دلجوئی کے لیے صبح و شام کا کھانا بھی ان کے ساتھ کھایا کرتے۔ ایک دن معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے کہنے لگے: تم عربوں کی ایک معزز قوم ہو۔ تم لوگوں نے اسلام کی وجہ سے عز و شرف حاصل کیا۔ تم دوسری امتوں پر غالب آ گئے اور ان کا سب کچھ خود سمیٹ لیا مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم قریش سے ناراض ہو، مگر یاد رہے کہ اگر قریش نہ ہوتے تو تم ہمیشہ کی طرح ذلیل اور کمزور رہتے اور گمنامی کی زندگی گزارتے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس بات کا ادراک تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہیں۔ فصاحت و بلاغت اور ہمت و حوصلہ سے متصف ہیں اور اپنی ذہانت و ہیبت کی وجہ سے فتنوں کا سامنا کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سامنے جب بھی کوئی مشکل اور پیچیدہ معاملہ آتا وہ اسے حل کرنے کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیتے۔ اب کے معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے میل جول رکھا، ان کے ساتھ بیٹھا کرتے۔ اس سے قبل کہ وہ ان کے بارے میں
Flag Counter