Maktaba Wahhabi

127 - 503
بھیانک جرم کا ارتکاب کرنے والوں سے قصاص کا مطالبہ نہ کرے۔[1] ۲۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کیوں نہ کی؟ معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ادوار خلافت میں شام کے والی تھے۔ مگر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کے عہدے سے معزول کرنے اور ان کی جگہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو شام کا والی مقرر کرنا چاہا، مگر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے معذرت کر لی، چنانچہ انہوں نے اس کی جگہ سہل بن حنیف کو شام بھیج دیا مگر ابھی وہ مشارف شام -وادی القریٰ- بھی نہیں پہنچے تھے کہ انہیں مدینہ واپس لوٹنا پڑا۔ اس جگہ حبیب بن مسلمہ فہری کی قیادت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے شہسواروں نے ان کا راستہ روک کر ان سے کہا کہ اگر تمہیں عثمان رضی اللہ عنہ نے بھیجا ہے تو ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اگر کسی اور نے بھیجا ہے تو آپ یہیں سے واپس لوٹ جائیں۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے انکار کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پہلے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے ان کا قصاص لے لیں پھر ہم ان کی بیعت کر لیں گے۔[3] ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اس شخص سے بیعت نہیں کریں گے جو عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو پناہ دے گا۔[4] پھر وہ اپنے آپ کو بھی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے خطرے میں محسوس کرتے تھے جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہو چکے تھے۔ دریں حالات انہوں نے سمجھا کہ ان پر قصاص سے پہلے علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کرنا واجب نہیں ہے اور یہ کہ اگر اس وجہ سے ان کے ساتھ لڑائی کی گئی تو وہ مظلوم ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا: مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو ازراہ ظلم قتل کیا گیا اور ان کے قاتل علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہیں اور چونکہ ان کے پاس قوت ہے، لہٰذا غالب بھی وہی رہیں گے، لہٰذا اگر ہم علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لیں تو وہ ہم پر ظلم ڈھائیں گے اور ہم پر زیادتی کریں گے اور اس طرح عثمان رضی اللہ عنہ کا خون رائیگاں جائے گا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ یہ سمجھتے تھے کہ عثمان کی مدد کرنا اور ان کے قاتلوں سے بدلہ لینا ان کی ذمہ داری ہے اور میں ان کے خون کا ولی ہوں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًاo﴾ (الاسراء: ۳۳) ’’اور جس کو ازراہ ظلم قتل کر دیا گیا ہو تو پھر یقینا ہم نے اس کے ولی کو غلبہ دیا ہے پس وہ قتل میں زیادتی نہ کرے، یقینا اس کی مدد کی گئی ہے۔‘‘ چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان سے ہم کلام ہوئے اور انہیں بتایا کہ انہیں بے وقوف منافقین نے ازراہ ظلم قتل کر ڈالا ہے، انہوں نے محترم خون کی ناقدری کرتے ہوئے اسے حرمت والے شہر اور حرمت والے مہینے میں بہا دیا۔ یہ سن کر لوگ بھڑک اٹھے اور اس کام سے بڑی نفرت کا اظہار کیا اور
Flag Counter