Maktaba Wahhabi

450 - 503
ممتاز شخصیات میں ہوتا ہے۔[1] خامساً:… عبیداللہ بن زیاد کے بھائی مسلم بن زیاد کی فتوحات … ۵۷ھ معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما نے ۵۷ھ میں سعید بن عثمان کو معزول کر کے ایک روایت کی رو سے خراسان کی ولایت عبیداللہ بن زیاد کو دے دی،[2] ایک دوسری روایت کی رو سے معاویہ نے خراسان پر عبدالرحمن بن زیاد کو والی مقرر کیا، چونکہ وہ ایک شریف انسان تھا لہٰذا فتوحات کے میدان میں کوئی کارکردگی نہ دکھا سکا، یہ ۵۹ھ کی بات ہے۔[3] معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت کے وقت خراسان کا والی عبدالرحمن بن زیاد تھا، جب مسلم خراسان کی طرف روانہ ہونے لگا تو یزید نے عراق میں اس کے بھائی عبیداللہ بن زیاد کے نام اس مضمون کا خط بھیجا کہ وہ اس کے لیے چھ ہزار شہسواروں کا انتخاب کرے، ایک روایت میں یہ تعداد دو ہزار بھی بتائی گئی ہے۔ سلم بن زیاد اپنے ساتھ رہنے کے لیے سرکردہ لوگوں کا انتخاب کیا کرتا تھا، لہٰذا عمران بن فضیل برجمی، مہلب بن ابو صفرہ، عبداللہ بن خازم سلمی، طلحہ بن عبداللہ بن خلف خزاعی اور بصرہ کے رؤساء و اشراف سے بہت سارے لوگ اس کے ساتھ ہو لیے۔ سلم نے بصرہ سے ان لوگوں کو اپنے ساتھ لیا اور پھر پوری تیاری کے بعد خراسان کی طرف روانہ ہو گیا۔[4] سلم نے فتوحات کا آغاز خوارزم کے ساتھ جنگ سے کیا، مگر شہر والوں نے چار سو درہم کے بدلے اس سے صلح کر لی اور وہ رقم اسے ادا کر دی۔ جب سلم نے نہر جیحون عبور کی تو اس وقت اس کی بیوی ام محمد بنت عبداللہ بن عثمان بن ابو العاص ثقفی بھی اس کے ساتھ تھی۔ نہر جیحون عبور کرنے والی یہ پہلی عرب خاتون تھی۔ وہ سمرقند پہنچا تو اس کے شہریوں نے اس کے ساتھ صلح کر لی۔[5] اسے پتا چلا کہ ملکہ بخاریٰ نے عہد شکنی کرتے ہوئے اپنے ہمسایہ صغد اور شمال کے ترکوں سے مدد طلب کی ہے۔ طرخون صغد کے لشکر کی قیادت کرتے ہوئے اس کی مدد کے لیے آیا جبکہ ترکوں کا کمانڈر بھی ایک بھاری بھر کم لشکر کے ساتھ میدان کارزار میں اترا۔ مگرز مادی قوات پر مشتمل بڑے بڑے لشکر مسلمانوں کی معنویات پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ انہوں نے بخاریٰ پر حملہ کیے بغیر اس کا محاصرہ کر لیا تاکہ وہ سب سے پہلے اپنے دشمنوں کی قوات اور ان کے مقامات سے آگاہ ہو سکیں ان کا دشمن اس وقت بخاریٰ کے قریب ہی گھات لگائے بیٹھا تھا۔ سلم بن زیاد نے مہلب بن ابو صفرہ ازدی کو دشمن کے حالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے کہا تو اس نے یہ تجویز پیش کی وہ اس مہم کو سر کرنے کے لیے کسی اور کو حکم دیں، اس کے لیے اس نے دلیل یہ پیش کی کہ وہ اپنی قوم اور مسلمانوں میں جانا پہچانا آدمی ہے، لہٰذا میرا مسلمانوں سے غائب ہونا میرے کندھوں پر ڈالی گئی ذمہ داری کو افشاء کر دے گا جبکہ اسے پردہ راز میں رہنا چاہیے تاکہ اسے انتہائی پردہ داری اور بڑی احتیاط کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچایا جا سکے، اس لیے کہ اس کا افشاء مسلمانوں کو شدید خطرات سے دوچار کر سکتا ہے۔ مگر سلم بن زیاد نے مہلب
Flag Counter