Maktaba Wahhabi

496 - 503
ہیں وہ اہم اسباب جن کی بنا پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ولایت عہد کے لیے اپنے بیٹے یزید کو نامزد کرنا پسند کیا۔ سادسًا:… یزید کی بیعت کے حوالہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ پر کی جانے والی تنقید گزشتہ اور معاصر مورخین میں سے اکثر لوگوں نے یزید کی بیعت کی ذمہ داری معاویہ رضی اللہ عنہ پر عائد کی ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ انہیں ان تمام غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جن کے ان کے زمانے سے لے کر آج تک کے حکام مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض مورخین تو انہیں اسلام میں شوریٰ کے نظام سے خروج کرنے سے متہم کرتے ہیں اور وہ پہلا شخص قرار دیتے ہیں جس نے اسلام کے نظام حکومت کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔[1] جبکہ ان میں سے بعض ان پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ انہوں نے ایسے نظام کو رواج دیا جو اولاً سیاست پر اعتماد کرتا ہے اور اس میں دین کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔[2] بعض مورخین انہیں قدیم فارسی اور رومی بادشاہوں سے مشابہ قرار دیتے ہیں۔[3]جبکہ بعض دوسرے انہیں سیاست میں اس مکتبہ فکر کا پیرو قرار دیتے ہیں جو مقصد کے حصول کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کرنے کے جواز کے نظریہ پر قائم ہے۔[4] بعض ان پر یہ حکم لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے سابقہ کبیرہ گناہوں میں ایک اور کبیرہ گناہ کا اضافہ کر لیا۔[5] جبکہ کچھ مورخین تو انہیں اس بیعت کی وجہ سے مسلمانوں کے اجماع سے خروج کا مرتکب ٹھہراتے ہیں۔[6] ان الزامات و اتہامات کی صحت یا عدم صحت سے آگاہ ہونے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم پہلے شوریٰ کی ماہیت اور اس کے نفاذ کی کیفیت سے آگاہ ہوں۔ اسلام میں شوریٰ حکومتی نظام کا ایک اہم ستون اور ٹھوس بنیاد ہے، اسلام میں حاکم کا اختیار اور کسی کا امت مسلمہ کے امور اپنے ہاتھ میں لے لینا اسے نہ تو مقدس گائے بناتا ہے اور نہ ہی اسے آزادانہ اختیارات تفویض کرتا ہے۔[7] بلکہ وہ اپنے ہر فعل کے لیے جواب دَہ ہوتا ہے۔ شوریٰ کے لیے کوئی خاص نظام وضع نہیں کیا گیا۔ اس اعتبار سے اس کی تطبیق احوال و ظروف اور موجود تقاضوں کے تابع ہو گی۔[8] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جن امور میں وحی کا نزول نہ ہوا ہوتا ان میں مسلمانوں کے ساتھ مشاورت کرتے اور جن دنیوی امور کو وہ آپ سے زیادہ جانتے ہوتے ان میں ان کی رائے پر عمل پیرا ہوتے۔
Flag Counter