Maktaba Wahhabi

495 - 503
اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بیٹے یزید سے افضل اور اس سے زیادہ باصلاحیت تھے، مگر اس کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہو سکتا ہے کہ اپنے بیٹے میں ایسی صلاحیت اور طاقت دیکھی ہو جو امت کی قیادت کے لیے ضروری تھی اور وہ اس سے عاری تھے، اس لیے کہ اس نے اپنے باپ کے ساتھ زندگی گزاری اور اہل شام ہمیشہ اس کی نصرت و معاونت کرتے رہے اور اس سے دوستی نبھاتے رہے، علاوہ ازیں وہ اپنے دَور کے سیاسی نشیب و فراز کا بھی بڑے قریب سے مشاہدہ کرتا رہا تھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے یزید سے عدل و انصاف کے حریص اور خلفائے راشدین کی اقتدا کی امید رکھتے تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ جب اس سے امت کے بارے میں اس کیفیت کے بارے میں سوال کرتے جسے وہ اپنانے کا اِرادہ رکھتا ہے، تو وہ جواب دیتا: ابا جان! اللہ کی قسم! میں ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسا کردار ادا کروں گا۔[1] جب دو ایسے آدمی آپ کے سامنے ہوں جن میں سے ایک زیادہ امانت دار اور دوسرا زیادہ طاقت ور ہو تو اس شخص کو مقدم رکھا جائے گا جو اُن میں سے اس ولایت کے لیے زیادہ نفع بخش اور کم ضرر رساں ہو گا، حربی امارت کے لیے طاقت ور اور بہادر آدمی کو کمزور آدمی پر مقدم رکھا جائے گا اگرچہ وہ فسق و فجور کا مرتکب ہوتا ہو اور دوسرا امین و پارسا ہو۔[2]ہر عہد کے لیے اس کے حساب سے زیادہ باصلاحیت شخص کا ہی انتخاب ہونا چاہیے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے دو ایسے آدمیوں کے بارے میں دریافت کیا گیا جو جنگ میں امارت کے منصب پر فائز ہوں اور ان میں سے ایک طاقتور اور فاجر ہو جبکہ دوسرا نیک اور کمزور ہو۔ ان میں سے کس کے ساتھ مل کر جنگ کی جائے؟ انہوں نے فرمایا: جہاں تک فاجر اور طاقت ور آدمی کا تعلق ہے تو اس کی طاقت و قوت مسلمانوں کے لیے مفید ہے جبکہ اس کا فسق و فجور اس کی ذات کے لیے ضرر رساں ہے، رہا کمزور اور نیک آدمی تو اس کی نیکی اس کے لیے مفید ہے جبکہ اس کی کمزوری مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے، لہٰذا طاقت ور اور فاجر امیر کے ساتھ مل کر جنگ کی جائے گی۔[3] حکمرانوں کی تقرری کا بڑا مقصد مسلمانوں کی حفاظت کرنا اور انہیں ان کے دشمن سے بچانا، ظالم کا ہاتھ روکنا اور مظلوم کو انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔ حکمران کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ راستوں کو پُرامن رکھے اور شریعت کے مطابق بیت المال سے ان کی خدمت کرے۔ جو شخص عوام الناس کے حوالے سے یہ فرائض سرانجام دینے پر قدرت رکھتا ہو وہ منصب امامت و ولایت کا استحقاق رکھتا ہے اگرچہ دوسرے اس سے زیادہ عبادت گزار ہوں، اس سے زیادہ علم رکھتے ہوں اور ورع و تقویٰ میں اس سے بہت آگے ہوں۔ اس لیے کہ اگر وہ امامت و خلافت کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہوں گے تو ان کے علم و زہد اور عبادت و ریاضت سے امت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔[4] معاویہ رضی اللہ عنہ فاضل کی موجودگی میں مفضول کو منصب ولایت پر فائز کرنے کو جائز خیال کرتے تھے۔ یہ
Flag Counter