Maktaba Wahhabi

494 - 503
بیعت کا مطالبہ کرتے تو کیا کوئی شخص ان پر اعتراض کر سکتا تھا؟ یقینا نہیں اور یہ اس لیے کہ امیر المومنین اس کے خود داعی ہوتے اور ولی عہد کے لیے جس شخص کا نام پیش کیا جاتا وہ ایسا شخص ہوتا جس کی نامزدگی اور بیعت میں امت اسلامیہ اور حکومت کی مصلحت ہوتی اور یہ معاملہ ہر قسم کے شکوک و شبہات اور جذبات سے مبرا ہوتا تو کیا آپ بھی میری طرح یہ نہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنا ممکن بھی تھا اور اس سے ولایت عہد کا مقصد بھی پورا ہو جاتا اور وہ مقصد تھا: مسلمانوں میں اختلاف کے دروازے بند کرنا اور امت اسلامیہ کو نئے سرے سے لاحق ہونے والے تنازعات اور فتنوں کے خطرات سے محفوظ رکھنا۔[1] ۳۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی اپنے بیٹے سے محبت:… ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے صلح کرنے کے بعد ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ میرے بعد منصب خلافت پر فائز ہوں گے، پھر جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یزید کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی اور انہوں نے اسے خلافت کے اہل خیال کیا اور یہ باپ کی اپنے بیٹے کے ساتھ شدید محبت کی وجہ سے تھا، نیز اس لیے بھی کہ وہ اس میں دنیوی نجابت و خوبی دیکھ رہے تھے اور خاص طور پر بادشاہوں کی اولاد کی طرح جو جنگوں سے آشنا ملکی ترتیب و تنسیق کے شناسا اور اس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی صلاحیت سے متصف ہوتے ہیں، ان کے خیال میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیٹوں میں سے کوئی ایک بھی اس معنی میں اس کے ہم پلہ نہیں تھا۔[2] عمرو بن حزم انصاری بیعت یزید کے خلاف تھے، انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو اللہ یاد دلایا اور ان سے انجام کار کو پیش نظر رکھنے کا مطالبہ کیا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: آپ خیر خواہ انسان ہیں، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے اس امر کی وضاحت کی کہ میدان عمل میں اب میرا بیٹا ہے یا پھر ان کے بیٹے ہیں اور میرا بیٹا ان کے بیٹوں سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔[3] یزید بعض ایسی صفات سے متصف تھا جنہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو اسے ولی عہد نامزد کرنے پر دلیر کیا۔ امام ذہبی یزید کے حالات زندگی قلم بند کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یزید طاقتور اور بہادر تھا، صاحب رائے اور پختہ کار تھا، بڑا دانا و بینا اور فصیح المقال تھا۔[4] ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یزید قابل تعریف عادات و خصال کا حامل بھی تھا، مثلاً جُود و کرم، حلم و حوصلہ، فصاحت و بلاغت، شعر و شاعری، شجاعت اور حکومت کے بارے میں حسن رائے۔[5] شاید انہی صفات کی وجہ سے ہی معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا ہو کہ یزید خلافت سنبھالنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہے۔[6]
Flag Counter