Maktaba Wahhabi

128 - 503
آوازیں بلند ہو گئیں۔ ان میں کچھ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے۔ ان میں سے ایک شخص مرہ بن کعب اٹھا اور کہنے لگا: اگروہ حدیث نہ ہوتی جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے تو میں بات نہ کرتا: … نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی فتنوں اور ان کے قریب آنے کا ذکر کیا، اس دوران کپڑے سے چہرہ چھپائے ایک آدمی گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس وقت یہ شخص ہدایت پر ہو گا۔‘‘ میں اٹھ کر اس کے پاس گیا تو پتا چلا کہ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے آپ کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا: یہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔[1] کتب حدیث میں ایک اور حدیث بھی وارد ہے جس نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے بدلہ لینے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہمت بندھائی اور انہوں نے اپنے مقصد کے حصول کا مصمم ارادہ کر لیا۔ وہ حدیث یہ ہے کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام بھیجا … اور آخری بات یہ ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ضرب لگاتے ہوئے فرمایا: عثمان! اللہ تعالیٰ آپ کو قمیص پہنائے گا اگر منافق تم سے وہ قمیص اتارنے کا مطالبہ کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ آپ مجھ سے آملیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی۔ میں نے کہا: ام المومنین! اب تک یہ حدیث کہاں رہی؟ انہوں نے فرمایا: و اللہ میں اسے بھول گئی تھی، میں اسے یاد نہ رکھ سکی، میں نے اس حدیث کی معاویہ رضی اللہ عنہ کو خبر دی تو انہوں نے اسے پسند نہ کیا یہاں تک کہ انہوں نے ام المومنین کو خط لکھا کہ مجھے یہ حدیث لکھ بھیجیں، چنانچہ انہوں نے یہ حدیث انہیں لکھ کر بھیج دی۔[2] قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر اللہ تعالیٰ کے حکم کے نفاذ کی شدید خواہش وہ رئیسی سبب تھا جس کی وجہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اہل شام نے علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی، ان کی رائے میں قصاص کا حکم بیعت پر مقدم تھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کو تو شام کی ولایت سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی چہ جائے کہ انہیں خلافت میں دلچسپی ہو۔ انہیں اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ یہ معاملہ اہل شوریٰ کے چھ لوگوں کے سپرد ہے اور یہ کہ علی رضی اللہ عنہ مجھ سے افضل اور اس کے زیادہ حق دار ہیں۔[3] ابومسلم خولانی سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ علی رضی اللہ عنہ سے تنازع کرتے ہیں، کیا آپ ان سے افضل ہیں؟ انہوں نے کہا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ سے افضل ہیں اور مجھ سے زیادہ خلافت کے حق دار ہیں، لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو ازراہ ظلم قتل کیا گیا، میں ان کا عم زاد ہوں، اور ان کے خون کا مطالبہ کرتا ہوں، ان کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ اگر وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو میرے حوالے کر دیں تو میں ان سے بیعت کر لوں گا۔ وہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے اس بارے میں بات کی مگر انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے نہ کیا۔[4] اور یہ جو لوگوں میں ہمیشہ سے مشہور چلا آ رہا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ میں اختلاف کا سبب یہ تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ خلافت کے خواہش مند
Flag Counter