Maktaba Wahhabi

140 - 503
چھوڑنے کے بارے میں سوچنے لگے مگر ڈٹے رہے۔ حوصلہ سے کام لیتے ہوئے اتنا سخت جوابی حملہ کیا کہ وہ عبداللہ بن بدیل کو قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے، پھر اس کی جگہ میمنہ کی قیادت اشتر نے سنبھال لی جس سے اہل شام کے قدم جم گئے اور ان میں سے بعض لوگوں نے موت پر بیعت کر لی۔ انہوں نے بڑی عزیمت کے ساتھ دوبارہ ایک بھرپور وار کیا جس کے نتیجہ میں شامی فوج کے سرکردہ لوگوں میں سے ذوالسلاع، حوشب اور عبیداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ موت کی وادی میں اتر گئے۔ شامی لشکر کو برتری حاصل ہو گی اور اس نے ایک بار پھر پیش قدمی شروع کرتے ہوئے عراقی لشکر کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس دوران کثیر تعداد میں عراقی مارے گئے جبکہ زخمیوں کا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا۔ جب علی رضی اللہ عنہ نے اپنی سپاہ کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو وہ انہیں بلانے اور جوش دلانے لگے اور پھر سخت جنگ کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ لشکر کے قلب کی طرف گئے جہاں قبیلہ ربیعہ کے لوگ ثابت قدمی سے لڑ رہے تھے جس سے ان کی حمیت بھڑک اٹھی اور انہوں نے اپنے امیر خالد بن معمر سے موت پر بیعت کر کے جنگ کا حق ادا کر دیا۔[1] اس وقت حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کی عمر چورانوے سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ وہ بڑی دلیری سے لڑتے ہوئے لوگوں کو جنگ کی ترغیب دلا رہے تھے اور ان کی ہمت بڑھا رہے تھے، مگر اس سب کچھ کے باوجود وہ غلو اور انتہاء پسندی سے بہت دور تھے۔ جب انہوں نے اپنے پاس ایک آدمی کو یہ کہتے سنا کہ اہل شام کفر کے مرتکب ہوئے تو آپ نے اسے اس سے روکتے ہوئے فرمایا: انہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی اور اسی بغاوت کی وجہ سے ہم ان سے لڑ رہے ہیں، ہمارا الٰہ بھی ایک، ہمارا قبلہ بھی ایک اور ہمارے نبی بھی ایک ہیں۔[2] جب حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کے ساتھی پیچھے ہٹ رہے ہیں اور ان کے مدمقابل لوگ آگے بڑھ رہے ہیں تو آپ انہیں ترغیب دلانے اور جنگ پر ابھارنے لگے، آپ نے انہیں یہ بھی بتایا کہ ہم حق پر ہیں، لہٰذا شامی سپاہ کی سخت ضربات انہیں ان کے راستے سے نہ ہٹائیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے: جو یہ چاہتا ہو کہ جنت کی حوریں اسے اپنی آغوش میں لے لے تو وہ حصول ثواب کے لیے صفین میں پیش قدمی کرے۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر وہ ہمیں مارتے مارتے ہمیں ہجر کے کھجور کے باغوں تک لے جائیں تب بھی ہم یہ یقین رکھیں گے کہ ہم حق پر ہیں اور یہ لوگ باطل پر۔[3] پھر آپ آگے بڑھنے لگے، آپ کے ہاتھ میں برچھا تھا جو کہ آپ کی کبر سنی کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ خود بھی آگے بڑھتے جاتے تھے اور پرچم بردار ہاشم بن عقبہ بن ابووقاص کو بھی آگے بڑھنے کی ترغیب اور اللہ کے ہاں موجود نعمتوں کے حصول کا شوق دلا رہے تھے۔ مزید برآں آپ اپنے اصحاب کو جنت کا طمع دلاتے ہوئے فرما رہے تھے: جنت قریب آ گئی اور جنت کی حوریں بن سنور گئیں جسے یہ شوق دامن گیر ہو کہ جنت کی حوریں اسے اپنی آغوش میں لے لیں تو وہ صفین کے میدان میں پیش قدمی
Flag Counter