Maktaba Wahhabi

189 - 503
مفادات کا خیال زیادہ جبکہ امت کے مفادات کا خیال کم تھا۔[1] جہاں تک عطیات کا تعلق ہے تو ان پر صرف ان کا حق نہیں تھا بلکہ دوسرے مسلمان بھی ان میں برابر کے حق دار تھے البتہ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ ان میں ان کا حصہ دوسروں سے زیادہ ہو مگر وہ اس مقدار کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچتا جس کا ذکر روایات میں کیا گیا ہے۔[2] ۳۔ خون:… جانبین میں صلح کے اتفاق کے ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ دونوں طرف کے تمام لوگوں کو امن و امان حاصل ہو گا اور ان میں سے کسی کا بھی کسی لغزش یا کینہ کی وجہ سے مؤاخذہ نہیں کیا جائے گا۔ بخاری کی روایت میں آتا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے وفد سے کہا کہ ہمارے ساتھ کے لوگ خون خرابہ کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ تو وفد نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو یہ ضمانت دی کہ سب لوگوں کو خون خرابہ معاف کر دیا جائے گا۔[3] اس بات پر طرفین کا مکمل اتفاق تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جو کچھ بھی ہوا اس کا کسی سے کوئی مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ قاعدہ بڑی اہمیت کا حامل تھا جس کا مقصد ماضی سے ہٹ کر حال اور مستقبل پر ارتکاز کرنا[4] اور گزشتہ دور کی رنجشوں کو بھلا کر نئے دور کا آغاز کرنا تھا۔ الغرض اس صلح کی بنیاد عام معافی پر رکھی گئی تھی اور عملاً بھی ایسا ہی ہوا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کسی بھی شخص کو اس کے گزشتہ گناہ پر سزا نہیں دی تھی، یوں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی معاویہ رضی اللہ عنہ سے یہ صلح عفو و احسان اور تالیف قلوب پر مبنی تھی۔ ۴۔ ولایت عہد یا شوریٰ:… یہ بھی کہا گیا ہے کہ شرائط صلح میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی جائے گی[5] اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر حسن رضی اللہ عنہ کی زندگی میں وہ کسی حادثہ کا شکار ہو گئے تو جملہ معاملات ان کے حوالے کر دئیے جائیں گے۔[6] مگر ابن اکثم حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے یہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: مجھے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت کے معاملہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اگر مجھے اس کی خواہش ہوتی تو خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے ہی نہ کرتا۔[7] اگر ہم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد طلب خلافت کی روایات کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ وہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے کرم و سخا اور خودداری کے منافی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کے خون بچانے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خلافت سے دست بردار ہو جائیں اور پھر دوبارہ اس کے حصول کے مطالبات کرنے لگیں، اس قول کے غیر صحیح ہونے کی دلیل
Flag Counter