Maktaba Wahhabi

213 - 503
بھی آپ ہی نے کرنا ہے۔ جو لوگ پہلی مجلس میں ابن زیاد کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے ان میں سے اب کسی نے اس کا ذکر تک بھی نہ کیا اور نہ اس کے واپس آنے کے بارے میں کوئی سوال کیا۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے احنف کی بات سنی تو وہ ان لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے: گواہ رہنا کہ میں نے عبیداللہ کو اس کے عہدہ ولایت پر دوبارہ بحال کر دیا ہے۔ اس پر وہ اس کا نام تجویز نہ کرنے پر نادم ہونے لگے، اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس کا پتا چل گیا کہ یہ لوگ ابن زیاد کے اس لیے شکر گزار نہیں ہو رہے تھے کہ انہیں اس میں کوئی دلچسپی تھی بلکہ یہ وہی کچھ ہے جو لوگ حکمرانوں کے حق میں عادتاً کیا کرتے ہیں۔ جب یہ لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کی مجلس سے الگ ہوئے تو انہوں نے عبیداللہ سے علیحدگی میں کہا: تو نے احنف جیسے آدمی کو کیوں ضائع کر دیا، اس نے خاموشی سے تجھے ولایت سے الگ کروایا اور پھر ولایت پر بحال بھی کروا دیا۔ جبکہ جن لوگوں کو تو نے آگے آگے رکھا اور ان پر اعتماد بھی کیا وہ نہ تو تیرے کسی کام آئے اور نہ انہوں نے ولایت و امارت کے لیے ہی تیرا نام پیش کیا۔ پھر جب یہ لوگ عراق واپس گئے تو عبیداللہ نے انہیں اپنے حلقہ خواص اور راز داں لوگوں میں شامل کر لیا۔[1] آپ نے دیکھا کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت کا علم ہوا اور انہیں ان کی بلند تر حیثیت کا ادراک ہوا تو ان کی عزت افزائی کرتے ہوئے انہیں اپنے سے قریب کر لیا اور ان کے لیے بہت زیادہ احترام کا اظہار کیا۔ اس سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اہل فضل کے بڑے قدردان تھے وہاں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ وہ طاقت ور اور با اثر افراد کو اپنے ساتھ ملانے اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی صلاحیت سے بھی بہرہ مند تھے۔[2] نیز یہ واقعہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی وسعت قلبی اور معاملات کے انجام سے آگاہ ہونے کی بھی ایک بڑی دلیل ہے۔ بعدازاں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کے بعد جب معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو استحکام میسر آ گیا تو ایک دن احنف رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے تو انہوں نے فرمایا: احنف! میں جب بھی جنگ صفین کو یاد کرتا ہوں میرا دل رنج و الم میں ڈوب جاتا ہے۔ اس پر احنف رضی اللہ عنہ نے کہا: معاویہ! اللہ کی قسم! جن دلوں میں ہم نے آپ کے لیے بغض پالا تھا وہ ابھی تک ہمارے سینوں میں ہیں اور جن تلواروں کے ساتھ ہم نے تم سے جنگ کی تھی وہ نیاموں میں ہیں، اگر تم انگلی بھر جنگ کے قریب ہو گے تو ہم ایک بالشت اس کے قریب ہوں گے اور اگر تم ادھر چل کر جاؤ گے تو ہم دوڑ کر جائیں گے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کر باہر نکل گئے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن جو پردے کے پیچھے سے یہ باتیں سن رہی تھی، کہنے لگی: امیر المومنین! یہ دھمکیاں دینے والا کون تھا؟ انہوں نے کہا: یہ وہ شخص ہے کہ جب یہ غضب ناک ہوتا ہے تو اس کے غضب کی وجہ سے بنو تمیم کے ایک لاکھ افراد غضب ناک ہو جاتے ہیں اور انہیں اس کے غیض و غضب کی وجہ بھی معلوم نہیں ہوتی۔[3]
Flag Counter