Maktaba Wahhabi

240 - 503
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان جیسے لوگوں نے ہی مسلمانوں کے دلوں میں تم سے نفرت و بغض پیدا کیا ہے، لہٰذا ان کی باتوں پر نہ جائیں اور انہیں ان کے عہدوں سے ہٹا دیں، اگر آپ یہ کام کر گزریں تو آپ اللہ تعالیٰ سے مزید قریب ہو جائیں گے اور مسلمان آپ سے زیادہ محبت کرنے لگیں گے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی باتوں پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے اس سے سلسلہ کلام یہ کہتے ہوئے منقطع کر دیا کہ: ام سنان! تو بھی یہ باتیں کہتی ہے؟ وہ بولی: سبحان اللہ! امیر المومنین! اللہ کی قسم! تم جیسے لوگوں کی نہ تو باطل کے ساتھ تعریف کی جا سکتی ہے اور نہ ان کے سامنے جھوٹ کے ساتھ معذرت کی جا سکتی ہے۔ آپ ہماری رائے سے بخوبی آگاہ ہیں اور ہمارے دلوں کی آواز سے بخوبی آشنا۔ و اللہ! جب تک علی رضی اللہ عنہ زندہ تھے وہ ہمیں تم سے زیادہ پسند تھے اور جب تک آپ زندہ رہیں گے ان کے علاوہ دوسروں سے زیادہ پسند رہیں گے۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس سے سوال کیا: میں جب تک زندہ رہوں گا تجھے کن لوگوں سے زیادہ پسند رہوں گا؟ اس نے جواب دیا: امیر المومنین! آپ ہمیں مروان بن حکم اور سعید بن العاص سے زیادہ پسند ہیں، پھر انہوں نے پوچھا: میں ان پر اس کا استحقاق کس وجہ سے رکھتا ہوں؟ اس نے بتایا: حلم و حوصلہ اور عفو و کرم کی وجہ سے۔[1] بات چیت ختم ہو گئی تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: میں اس وقت تمھاری کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ اس نے کہا کہ مدینہ میں گرفتار میرے پوتے کو رہا کر دیا جائے۔ انہوں نے اس کی درخواست کو قبول کر لیا، پھر اس کا اکرام اور صلہ رحمی کرتے ہوئے اسے واپس مدینہ بجھوا دیا۔ بعدازاں وہ ہمیشہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعائیں کرتی رہی۔[2] یہ ہے عصر تابعین کی ایک خاتون ام سنان جو حق گوئی اور صاف دلی سے متصف تھی اور اسے ایسی حکمت و بلاغت سے نوازا گیا تھا جس کی وجہ سے اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔[3] ام سنان ایسی اکیلی عورت نہیں تھی جو آزادانہ انداز میں اپنی رائے کا اظہار کرتی اور کھل کر اپنے اعتقادات بیان کیا کرتی تھی بلکہ اس جیسی اور بھی بہت ساری خواتین اپنے اندر یہ حوصلہ پاتی تھیں۔ جن میں سے زرقاء بنت عدی[4] اور ام الخیربنت حریش[5] سرفہرست ہیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو کھل کر اپنی آراء کے اظہار کا موقع دیتے اور تنقید کرنے اور پرامن معارضہ کے حق کو استعمال کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کرتے۔
Flag Counter