Maktaba Wahhabi

250 - 503
۲۔ کسی صحیح دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کے دوران بھی انہیں کبھی سب و شتم کیا ہو تو کیا یہ بات معقول ہے کہ وہ ان کے ساتھ جنگ کے اختتام اور ان کی وفات کے بعد انہیں گالی دیں گے۔ یہ بات اہل عقل و دانش کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔ جب وہ خود ایسا نہیں کر سکتے تو دوسروں کو اس کے لیے کیسے پابند کر سکتے ہیں؟ ۳۔ معاویہ رضی اللہ عنہ بڑے دانا شخص تھے اور وہ عقل و فکر میں بڑی شہرت کے حامل تھے۔ اگر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دینے کے لیے لوگوں کو اُکسانا چاہتے تو کیا وہ اس کام کے لیے سعد بن ابووقاص رضی اللہ عنہ جیسے انسان سے مطالبہ کرتے جبکہ ان کی شجاعت و دلیری، فضیلت و پرہیز گاری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی اور پھر وہ فتنہ میں سرے سے داخل ہی نہیں ہوئے تھے۔ ایسا کام تو کوئی احمق شخص بھی نہیں کر سکتا چہ جائیکہ معاویہ رضی اللہ عنہ جیسا انسان یہ کچھ کرنے لگے۔ ۴۔ معاویہ رضی اللہ عنہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی خلافت سے دست برداری کے بعد خلافت کے ساتھ منفرد تھے۔ سب لوگوں نے ان پر اتفاق کر لیا تھا اور تمام شہر ان کے ماتحت تھے۔ ایسے حالات میں علی رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کرنا انہیں کیا فائدہ دے سکتا تھا؟ بلکہ حکمت و دانائی اور حسن سیاست تو اس کے برعکس کی متقاضی تھی تاکہ انسانی نفوس کو اطمینان ملتا اور امور مملکت میں ٹھہراؤ آتا۔ یہ باتیں معاویہ رضی اللہ عنہ سے مخفی رہنے والی نہیں تھیں۔ ۵۔ استقلال خلافت کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کے درمیان قربت و الفت پیدا ہو چکی تھی جیسا کہ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں مشہور ہے۔[1] مثلاً حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما وفد کی صورت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے دو لاکھ درہم ہدیہ کی صورت میں ان کے حوالے کیے اور پھر فرمایا: اتنا گراں قدر ہدیہ مجھ سے پہلے آپ کی خدمت میں کسی نے پیش نہیں کیا۔ اس پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے ہم سے افضل کسی شخص کو بھی تو کبھی عطیہ نہیں دیا۔[2] ایک دفعہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہتے ہیں، پھر انہیں تین لاکھ درہم عطیہ دینے کا حکم جاری فرمایا۔[3] اس سے اس جھوٹ کی جڑ کٹ جاتی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کرنے کے لیے لوگوں کو اُکسایا کرتے تھے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور اولاد علی رضی اللہ عنہ کے درمیان اس طرح کی الفت و مودت بھی ہو اور وہ ایک دوسرے کی تعظیم و توقیر بھی کریں اور پھر معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے والد گرامی کو سب و شتم بھی کریں۔ اس سے اس مسئلہ کے بارے میں حق عیاں ہو جاتا ہے اور اصل حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔[4] مزید برآں چونکہ وہ معاشرہ عمومی طور سے احکام شریعت کا پابند اور نفاذ شریعت کے لیے بڑا حریص تھا، لہٰذا وہ لوگ لعن طعن اور
Flag Counter