Maktaba Wahhabi

262 - 503
کی حجر رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے ملاقات ہو گئی۔ مالک رضی اللہ عنہ نے ان سے اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ انہیں قتل کر دیا گیا ہے۔ پھر اس خبر کی ان کے باپ عدی سے بھی تصدیق ہو گئی۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کی آمد سے مطلع کیا گیا تو انہوں نے کہا: یہ ایک تپش ہے جو وہ اپنے جی میں پاتے ہیں اور گویا کہ میں اسے ٹھنڈا کر چکا ہوں، پھر انہوں نے مالک کے پاس ایک لاکھ درہم بھجوائے اور ساتھ ہی یہ پیغام بھیجا کہ مجھے یہ خوف دامن گیر ہوا کہ حجر لوگوں کو دوبارہ جنگ میں جھونک دیں گے جس کی وجہ سے مسلمانوں پر ان کے قتل سے بھی بھاری مصیبت ٹوٹتی، جس سے وہ مطمئن ہو گئے۔[1] مالک بن ہبیرہ سکونی رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی تھے جنہیں معاویہ رضی اللہ عنہ نے حمص کا والی مقرر کیا تھا۔ آپ مالک کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ میں نے مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو مسلمانوں کا خیر خواہ نہیں دیکھا۔[2] حجر بن عدی اور ان کے رفقاء کے قضیہ کے علاوہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ اپنی پرامن حکمت عملی کی نگہداشت کی جو کہ رعایا کے حوالے سے حلم و حوصلہ اور وسیع ظرفی پر مبنی تھی۔ وہ اپنی اس حکمت عملی کا چند جملوں میں اس طرح اظہار کرتے ہیں: جس جگہ کوڑا کافی ہو میں وہاں تلوار استعمال نہیں کرتا، اور جہاں میری زبان کام دے جائے میں وہاں کوڑا استعمال نہیں کرتا۔ اگر میرے اور لوگوں کے درمیان تعلقات کا ایک بال بھی باقی رہ جائے تو وہ ٹوٹ نہیں پائے گا، اگر وہ اسے کھینچیں گے تو میں اسے ڈھیلا کر دوں گا اور جب وہ اسے ڈھیلا کریں گے تو میں اسے کھینچ لوں گا۔[3] یہ ایک حکیمانہ اور دانش مندانہ سیاست ہے جس میں حدود کے اندر رہ کر بات کرنے کی کھلی آزادی ہوتی ہے۔ جب زبان کی جگہ مال کفایت کرتا تو معاویہ رضی اللہ عنہ اس پر اعتماد کرتے۔ جس جگہ زبان سے کام نکلتا وہ اس جگہ کوڑا استعمال نہ کرتے اور جہاں کوڑا کام نکال سکتا وہاں تلوار استعمال نہ کرتے۔[4] ایک دفعہ زیاد کا آزاد کردہ غلام سلیم معاویہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں زیاد پر فخر کرنے لگا تو انہوں نے فرمایا: خاموش ہو جا تیرا مرحب (زیاد) تلوار سے بھی وہ چیز حاصل نہیں کر سکتا جس سے کہیں زیادہ میں زبان سے حاصل کر لیتا ہوں۔[5]
Flag Counter