Maktaba Wahhabi

303 - 503
اس دوران خراج کی وصولی میں بعض انحرافات دیکھنے میں آئے جن میں سے اہم تر یہ ہیں: ان اراضی پر بھی خراج عائد کر دیا گیا جو صلح کے معاہدہ کی نص کی رو سے اس سے مستثنیٰ تھیں۔[1] یہ کچھ یزید بن معاویہ کے عہد (۶۰-۶۴ھ) میں ہوا جب اس نے اردن اور فلسطین میں سامرہ[2] کی زمین پر خراج عائد کر دیا۔ بعض صوبوں میں خراج وصول کرنے کے لیے سختی برتی گئی۔ اس سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دور مستثنیٰ ہے اور اس کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے گئے۔[3] خراج جمع کرنے کے اخراجات خراج دینے والوں کے ذمہ لگانا۔ ان اخراجات میں اس کاغذ کی قیمت بھی شامل کی جاتی جس پر خراج کی مقدار لکھی جاتی تھی، ان اخراجات میں ان سٹورز کا کرایہ بھی شامل ہوتا جن میں عینی خراج کو محفوظ کیا جاتا تھا حتی کہ خراج وصول کرنے والے کی اجرت بھی ان پر ڈال دی جاتی تھی۔ مزید برآں وصولی خراج کے دیگر کئی اخراجات بھی ان لوگوں پر ڈال دئیے جاتے تھے۔[4] تحصیل محاصل کا یہ غیر منصفانہ انداز خاص طورسے صوبہ عراق میں اپنایا گیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت سے قبل یہی کچھ ہوتا رہا مگر انہوں نے زمام خلافت سنبھالنے کے ساتھ ہی اس کا ابطال کر دیا جبکہ ان کی وفات کے بعد اسی طرز عمل کو دوبارہ بحال کر دیا گیا۔[5] اموی دورِ حکومت میں خراج کے لیے ایک خاص دیوان تھا جو کہ دیوان خراج کے نام سے موسوم تھا جس کی ذمہ داری خراج وصول کرنا، اسے جمع کرنا، اس کا ریکارڈ رکھنا اور اس کی مقدار کا تعین کرنا تھا اور یہ اس لیے کہ خراج حکومتی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔[6] اموی حکمرانوں نے خراج جمع کرنے کے لیے مسؤلین کا الگ سے تعین کر رکھا تھا۔ مختلف مصادر نے ان لوگوں کے نام گنوائے ہیں جو خراج وصول کرنے اور اسے جمع کرنے کے ذمہ دار تھے اور جو دیوان خراج کی کارکردگی پر نظر رکھتے تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے دمشق کے خراج پر سرجون بن منصور،[7] فلسطین کے خراج پر سلیمان مشجعی[8] اور حمص کے خراج پر ابن اثال نصرانی[9] کو متعین کر رکھا تھا۔ سرجون بن منصور، یزید بن معاویہ کے عہد حکومت نیز معاویہ ثانی، مروان بن حکم اور عبدالملک کے ادوار میں بھی اسی منصب پر کام کرتا رہا آخر عبدالملک نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں اسے معزول کر دیا۔[10]
Flag Counter