Maktaba Wahhabi

306 - 503
جائے۔ جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔[1] اس کا کچھ حصہ اسے حاصل کرنے والوں کو بھی دیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ بیت المال کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ یہ حصہ سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ادا کیا۔[2] جس کا مقصد غلہ میں اضافہ کرنا تھا۔[3] لہٰذا اس وقت غلہ پچاس ملین کی مالیت تک جا پہنچا تھا۔[4] معاویہ رضی اللہ عنہ صوافی کی اہمیت سے پہلے دن سے آگاہ ہو چکے تھے، لہٰذا انہوں نے خلیفۃ المسلمین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام بقول ابن عساکر یہ خط ارسال کیا کہ انہیں جو اخراجات وہ ادا کرتے ہیں اس سے لشکروں کے اخراجات اور ان کے امراء کے قاصدوں کی خدمات کا معاوضہ ادا نہیں ہو پاتا اور نہ ہی ان کے پاس حاضر ہونے والے اہل روم کے قاصدوں اور ان کے وفود پر اٹھنے والے اخراجات ادا کیے جا سکتے ہیں، پھر انہوں نے اپنے اس خط میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کھیتیوں کے بارے میں بتایا اور ان سے درخواست کی کہ وہ انہیں ان کھیتوں سے کچھ حصہ دلوائیں تاکہ وہ اس سے ان ذکر کردہ لوگوں کے اخراجات پورے کرنے پر قادر ہو سکیں۔ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ بھی بتایا کہ یہ کھیت اہل ذمہ کی بستیوں کے نہیں ہیں اور نہ ہی خراجی ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے انہیں بذریعہ خط اس کی اطلاع دی[5] اور ان کھیتوں کے ساتھ بنو فوقا کے کھیت اور زمینیں بھی شامل کر دیں جن کا کوئی وارث نہیں تھا۔[6] جب یہ حکم معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملا تو انہوں نے ان زمینوں کو مسلمانوں اور اپنے اہل خانہ کے فقراء کے لیے وقف کر دیا۔ شیعہ مورخ یعقوبی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حکم ملا تو انہوں نے ان اراضی اور شام، جزیرہ، یمن اور عراق میں بادشاہوں کی اراضی کو اپنی ذات کے لیے مخصوص کر لیا۔[7] جن سے وہ اپنے اہل بیت کے فقراء اور اپنے حلقہ خاص کے لوگوں کو نوازا کرتے تھے، اس طرح اس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ تاثر دیا کہ پوری دنیا میں صوافی سب سے پہلے ان کے تصور میں آئے۔[8] مگر اس کا یہ تاثر غلط ہے اور پھر خود اس کے اپنے بیان میں بھی تضاد ہے اور وہ اس طرح کہ جزیرہ اور یمن میں صوافی کا ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ یہ بات سبھی کے علم میں ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سواد عراق اور شام کی اراضی سے کچھ مخصوص حصے صوافی کے طورسے حاصل کیے تھے مگر ان میں جزیرہ اور یمن کی صوافی شامل نہیں تھیں۔[9] یعقوبی نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان اراضی کو اپنی ذات کے لیے مخصوص کر لیا تھا جن سے وہ اپنے اہل بیت کے فقراء اور اپنے حلقہ خواص کے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے۔ اگر اس نص کا اسی موضوع سے متعلق ابن عساکر کی نص کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ اس روایت میں مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا ہے۔
Flag Counter