Maktaba Wahhabi

317 - 503
خریدنے میں دلچسپی لینے لگے، جس سے تاجر پیشہ لوگوں کی کارکردگی اور تجارت کے فروغ میں مزید اضافہ ہوا۔[1] امویوں نے تجارت کی دنیا میں بڑا اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر اس لیے بھی کہ خلیفۃ الاسلام معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا شمار قریش مکہ کے بڑے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا، مزید براں جب معاویہ رضی اللہ عنہ خود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں شام کے والی تھے تو وہ اپنے تجارتی قافلوں کو شام سے جزیرہ عربیہ کے پایہ تخت بھیجا کرتے تھے۔[2] اموی دورِ حکومت میں تاجروں کو نمایاں معاشرتی مقام و مرتبہ حاصل تھا، انہوں نے تجارتی کارکردگی کو موثر بنانے کے لیے کئی تجارتی کمپنیاں قائم کر رکھی تھیں جن میں وہ سرمایہ بھی لگاتے اور عملی کردار بھی ادا کرتے۔ ان میں سے کئی لوگ مضاربت کے اصول پر کاروبار کیا کرتے تھے۔[3] اس دور میں مضاربہ کمپنیوں نے خوب ترقی کی اور تجارتی عمل میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔[4]نئی کروٹ لینے والے سیاسی ظروف و حالات کی وجہ سے دار الحکومت دمشق کو اہم تجارتی حیثیت حاصل ہو گئی تھی جو کہ مشرقی تجارت کا مرکز تھا اور جہاں سے مختلف علاقوں میں تجارتی سامان کی ترسیل ہوتی تھی۔[5] دمشق کی اسی اہمیت کی وجہ سے اس کی مارکیٹیں مختلف قسم کے تجارتی سامان سے بھری رہتیں جس میں مقامی طور پر تیار کردہ سامان بھی ہوتا اور بیرون ملک سے درآمد کردہ بھی، یاقوت حموی رقمطراز ہے: دمشق کے بازاروں میں کسی بھی طلب کردہ چیز کا غیر موجود ہونا ممکن نہیں تھا۔ یہاں تک کہ متمدن دنیا سے درآمد کردہ مہنگا ترین سامان بھی دمشق میں موجود ہوتا تھا۔[6] صرف اسی پر بس نہیں، دمشق اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے بادیہ نشینوں کے لیے بھی اہم تجارتی مرکز تھا جہاں خرید و فروخت کے لیے بادیہ نشین اور صحراء میں مقیم لوگوں کی آمد و رفت لگی رہتی تھی۔[7] شام کے دیگر شہر مثلاً حلب، رصافہ، حمص، رملہ، قدس اور انطاکیہ بھی اپنی تجارتی اہمیت کی بنا پر بڑی شہرت کے حامل تھے۔[8] یہ درست ہے کہ کوفہ، بصرہ، موصل اور نجد و حجاز کے کئی شہروں میں بھی تجارتی سرگرمیاں جاری تھیں مگر اس حوالے سے شام کے شہر بہت آگے تھے ان کی حیثیت بڑے اور اہم تجارتی مراکز کی تھی، علاوہ ازیں اس کے بعض شہروں میں جو موسمی بازار لگتے تھے ان میں بھی مختلف قسم کی تجارتی اشیاء کی بکثرت خرید و فروخت ہوتی تھی جن سے شہری اور دیہاتی لوگ برابر استفادہ کیا کرتے تھے، ان موسمی منڈیوں اور بازاروں میں بصرہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی جو تیس سے لے کر چالیس دنوں تک قائم رہتا، اس کے ساتھ ساتھ اذرعات کی منڈی بھی بڑی اہمیت کی حامل تھی جو کہ اموی دورِ حکومت کے بعد تک بھی منعقد ہوتی رہی۔[9] جہاں تک معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے یزید کے ادوار حکومت میں بیرونی تجارت کا تعلق ہے تو اس دوران اسے بیزنطی حکومت کے ساتھ بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ بیرونی تجارت کے اس فروغ میں متعدد عوامل نے اہم کردار ادا کیا، مثلاً:
Flag Counter