Maktaba Wahhabi

322 - 503
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد گرامی ہے: ’’عمرو صادق ہیں: اللہ کے ہاں عمرو کے لیے خیر کثیر ہے۔‘‘[1] ٭ عمرو بن العاص نے علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے مطالبہ پر بیعت کی تھی، عمرو رضی اللہ عنہ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ سے شدید طور پر متاثر ہوئے، جب انہوں نے خلیفہ مظلوم کی شہادت کی خبر سنی تو وہ روتے ہوئے پیدل ہی چل کھڑے ہوئے، اس وقت وہ کہہ رہے تھے: ہائے عثمان! ہم حیاء داری اور دین کو آپ کی موت کی خبر دیتے ہیں، یہاں تک وہ دمشق پہنچ گئے۔[2] عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا شمار حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھیوں، مشیروں اور دوستوں میں ہوتا تھا، وہ عہد عثمان رضی اللہ عنہ میں بدون ولایت شوریٰ کے اجلاس میں شریک ہوا کرتے تھے، ان کے معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے سے تعاون کر کے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص اور خلیفہ شہید کا انتقام لے سکیں۔[3] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل ناحق سفاک مجرموں کے خلاف ان کے غیض و غضب کو تحریک دینے کے لیے کافی تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم کے خلاف دلیری دکھانے والوں سے انتقام لینے کے لیے مدینہ منورہ کے علاوہ کسی اور جگہ کا انتخاب ضروری تھا۔ آخر خلیفہ مظلوم عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے غضب ناک ہونے میں انوکھے پن والی کون سی بات ہے؟ اگر اس موضوع میں کسی کو کوئی شک ہے تو اس کا دار و مدار ان جھوٹی روایات پر ہے جو حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ ان کا واحد مقصد اقتدار اور حکومت کا حصول تھا۔[4] اسی الزام کی تردید کہ مصر عمر بن العاص کو رشوت کے طور سے دیا گیا، ابو مخنف -جو کہ گزشتہ جھوٹ کا ایک راوی ہے- کی ذکر کردہ اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا اپنا لشکر مصر بھیجنا اور اسے علی رضی اللہ عنہ کے انصار سے چھین لینا اس امید کے پیش نظر تھا کہ اگر وہ اس پر غالب آ گئے تو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں پر غالب آ جائیں گے اس لیے کہ مصر سے بہت زیادہ خراج حاصل ہوتا تھا۔[5] ایسے میں معاویہ رضی اللہ عنہ یہ سارا خراج عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے حوالے کیسے کر سکتے تھے جبکہ خود انہیں اس کی شدید ضرورت تھی؟ یاد رہے کہ اس حملہ کے قائد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے۔ اس کی دوسری دلیل یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت سنبھالنے کے بعد مصر کے خراج پر اپنے عامل وردان کو لکھا کہ ہر قبطی سے ایک قیراط مزید خراج وصول کیا جائے۔ جس کے جواب میں وردان نے لکھا کہ میں ان کے خراج میں کس طرح اضافہ کر سکتا ہوں جبکہ ان کے ساتھ کیا گیا معاہدہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔[6] وردان کو
Flag Counter