Maktaba Wahhabi

339 - 503
بارے میں تمہیں ایک خط لکھ رہا ہوں: ۱۔ پانچ خصلتیں اختیار کریں اس سے تمہارا دین بھی محفوظ رہے گا اور اس میں تمہیں اپنا بہترین حصہ بھی میسر آئے گا: [1] جب تمہارے سامنے جھگڑا کرنے والے دو فریق حاضر ہوں تو عادل گواہ اور قطع کرنے والی قسم کو لازم پکڑنا، یہی اس قاضی کا راستہ ہے جو عالم الغیب نہیں ہے۔ جو شخص یہ طریق کار اختیار کرے گا اس کا دین بھی محفوظ رہے گا اور وہ آخرت میں بھی بہترین حصہ اور ثواب حاصل کرے گا۔[2] قطع کرنے والی قسم کا معنی یہ ہے کہ اس سے خصومت اور تنازع ختم ہو جائے۔[3] ۲۔ کمزور آدمی کو اس قدر اپنے قریب کریں کہ اس کا دل مضبوط ہو جائے اور اس کی زبان کھل جائے۔[4] اس سے ان کا مقصد ضعیف کو طاقتور پر مقدم رکھنا نہیں تھا بلکہ فریقین کے ساتھ برابر کا سلوک کرنا تھا، اس لیے کہ طاقتور تو اپنی طاقت کی وجہ سے ازخود قریب ہو جاتا ہے جبکہ کمزور آدمی اس کی جسارت نہیں کر سکتا، طاقتور آدمی اپنی دلیل خود پیش کر سکتا ہے جبکہ کمزور آدمی ایسا کرنے سے قاصر رہتا ہے، لہٰذا قاضی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ضعیف شخص کو اپنے قریب کرے تاکہ اس کا دل مضبوط ہو جائے اس کی زبان کھل جائے اور وہ آزادانہ انداز میں اپنی دلیل پیش کر سکے۔[5] ۳۔ غریب الدیار کا خیال رکھنا، اس لیے کہ اگر تم نے اس کا خیال نہ رکھا تو وہ اپنا حق ترک کر کے اپنے اہل خانہ کے پاس واپس لوٹ جائے گا۔ بسا اوقات وہ شخص اس کا حق ضائع کر دے گا جو اس کے ساتھ اس کا سر اوپر نہیں اٹھائے گا۔[6] کہا گیا ہے کہ غریب الدیار لوگوں کو مقدم رکھنے کا حکم اس وقت کے لیے ہے جب مجلس قضاء میں لوگوں کا رش ہو، اس لیے کہ غریب الدیار شخص کا دل اس کے اہل خانہ کے ساتھ الجھا ہوتا ہے، لہٰذا قاضی کو چاہیے کہ اس کا مقدمہ پہلے سن لے تاکہ وہ اپنے اہل خانہ کے پاس واپس جا سکے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غریب الدیار لوگوں کا بڑا خیال رکھا کرتے تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ غریب الدیار شخص شکستہ دل ہوتا ہے، اگر قاضی اس کا خیال نہیں رکھے گا تو وہ اپنی حجت کے اظہار سے بے بسی محسوس کرے گا اور حق چھوڑ کر واپس چلا جائے گا اور اس طرح قاضی اس کے حق کو ضائع کرنے کا سب بنے گا کیونکہ اس نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ ۴۔ جب تک تم کسی فیصلہ کن نتیجے پر نہیں پہنچ جاتے لوگوں میں صلح کروانے کو اپنا وطیرہ بناؤ۔[7] عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم اس بات کی دلیل ہے کہ قاضی کے لیے فریقین میں صلح کروانا مستحسن ہے خصوصاً جب کیس میں الجھاؤ ہو اور کسی نتیجہ پر پہنچنا مشکل ثابت ہو رہا ہو۔[8]
Flag Counter