Maktaba Wahhabi

351 - 503
مسلمہ بن مخلد انصاری رضی اللہ عنہم۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ان لوگوں کے انتخاب کی وجہ صرف ان کے ساتھ ان کی دوستی ہی نہیں تھی بلکہ ان میں سے زیادہ تر کی خدمات ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کو بھی حاصل رہی تھی، لہٰذا انہوں نے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا مناسب سمجھا، پھر یہ ایسے لوگ بھی تھے جنہیں شام میں اسلامی فتوحات کے واقعات نے نمایاں کر دیا تھا۔[2] یہ امر بھی ہمارے ملاحظہ میں ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مختلف شہروں کی ولایت کے لیے باصلاحیت اور وفادار لوگوں کا انتخاب کیا اگرچہ انہوں نے اپنے بعض معاونین کا انتخاب اپنے اہل بیت سے کیا مگر آپ ان کے ساتھ بڑی احتیاط پر مبنی معاملہ کرتے یہاں تک کہ ان کے بارے میں مطمئن ہو جاتے اور ان کی انتظامی اور ادارتی صلاحیتوں کا یقین کر لیتے۔ آپ آغاز میں انہیں طائف[3] جیسے چھوٹے شہروں کے لیے منتخب کرتے پھر جب ان میں سے کوئی اپنی انتظامی صلاحیت کا لوہا منوا لیتا تو اس کی ولایت کا دائرہ مکہ مکرمہ تک بڑھا دیتے اور پھر مدینہ منورہ کو بھی اس کی ماتحتی میں کر دیتے اور پھر اسے باصلاحیت ماہر کا لقب دے دیا جاتا۔[4] یہاں پر یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس وقت طائف کا شمار اہم ترین شہروں میں ہوتا تھا جس کی وجہ وہاں طاقتور قبیلہ بنوثقیف کا آباد ہونا تھا۔[5] جو بھی والی سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے طائف پر کنٹرول کر لیتا اس کے لیے دیگر شہروں پر کنٹرول حاصل کرنا مشکل نہ رہتا۔ اس امر کے اشارے موجود ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجاز میں ایک ایسا مرکز قائم کر رکھا تھا جس میں اموی خاندان کے لوگوں کو مستقبل کے کامیاب حکمران بنانے کے لیے تربیت دی جاتی تھی۔[6] معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے خاندان کے جن لوگوں کی خدمات سے سرکاری طور سے فائدہ اٹھانا ہوتا انہیں ایک دوسرے سے الگ رکھنے کی کوشش کرتے اور یہ اس لیے کہ وہ ان کے خلاف کوئی محاذ نہ کھڑا کر سکیں۔[7] معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کی خلافت کے دور میں ان کی غیر مسلم رعایا کو خصوصی مراعات حاصل تھیں، ان کے ساتھ حد درجہ نرمی برتی جاتی اور ان کے ساتھ درگزر سے کام لیا جاتا اور وہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنے حقوق حاصل کر لیتے۔ وہ لوگ مختلف حکومتی عہدوں پر بھی کام کرتے تھے۔ انہوں نے اس بیزنطی اور قبطی نظاموں کو قائم رکھا جس پر مصر، شام اور مغرب میں عمل کیا جاتا تھا، اسی طرح عراق اور خراسان میں بھی فارسی نظاموں کو باقی رہنے دیا گیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا معالج خاص ابن اثال غیر مسلم تھا۔[8] اسی طرح ان کا رومی مالی مشیر سریج (سرجون) بن منصور[9]، ابن سینا اور ابن نضیر[10] جیسے ان کے عمال غیر مسلم تھے جن میں سے کچھ بعد میں دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئے۔
Flag Counter