Maktaba Wahhabi

381 - 503
ضعیف اور موضوع روایات سے استشہاد کیا اور باطل تاویلات اور غلط موازنہ سے کام لیا، ان لوگوں کی آراء بعض مستشرقین مثلاً ’’گولڈ زیہر‘‘ کی آراء سے ہم آہنگ ہیں جس کے نزدیک ابوہریرہ رضی اللہ عنہ زیادہ روایات کی وجہ سے قابل گردن زدنی ہیں۔[1] ان کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ: ابوہریرہ نے متاخر الاسلام ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (۵۳۷۴) روایات نقل کی ہیں جو کہ خلفائے اربعہ اور دیگر کئی سابق الاسلام صحابہ رضی اللہ عنہم سے بہت زیادہ ہیں۔[2] مگر خلفائے راشدین کا حفظ اور کثرت روایت کے میدان میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقارنہ کرنا غلط ہے، اس کے چند اسباب ہیں، جن میں اہم تر یہ ہیں: ٭ یہ درست ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سابق الاسلام ہیں مگر ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جتنی روایات مروی نہیں ہیں، لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حکومتی اور سیاسی امور میں مصروف رہے جس کی وجہ سے وہ ذاتی طور پر تعلیم و تعلم کے لیے زیادہ وقت نہ نکال سکے۔ مگر انہوں نے یہ بار امانت اس طرح ادا کیا کہ مختلف شہروں اور علاقوں میں علماء، قراء اور قضاۃ کو بھیجا اور خود امت کے معاملات کی اصلاح میں مصروف رہے، اگر ہم خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قلت روایت کی وجہ سے اس لیے ملامت نہیں کر سکتے کہ وہ فتوحات اسلامیہ میں مصروف رہے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بکثرت نقل حدیث کی وجہ سے بھی ملامت نہیں کر سکتے اس لیے کہ وہ علمی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔[3] ٭ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا تعلیم و تعلم میں مصروف رہنا اور ان کی طویل عمر کی وجہ سے لوگوں کا ان کی طرف رجوع کرتے رہنا ان کے اور سابق الاسلام صحابہ نیز خلفائے اربعہ کے درمیان موازنہ کرنے کو غیر صحیح قرار دیتا ہے۔ بلکہ ایسا کرنا بہت بڑی غلطی کے مترادف ہو گا۔[4] ان کی طرف سے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ روایات نقل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں رہ کر لوگوں کو فتاویٰ دیا کرتی تھیں جبکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں حلقہ درس قائم کر رکھا تھا، پھر مرد ہونے کے ناطے ان کا لوگوں کے ساتھ میل جول زیادہ رہتا تھا اور وہ صبح و شام لوگوں سے رابطے میں رہتے تھے۔ مزید برآں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی توجہ عورتوں کے مسائل پر مرکوز تھی اور ہر آدمی کا ان کی خدمت میں حاضر ہونا دشوار تھا۔[5] ہویٰ پرستی سے مجرد نظر اس امر کا ادراک کر سکتی ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث تعجب خیز نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی وجہ سے اس شور و شغب کی ضرورت تھی جو ہویٰ پرستوں اور سنن نبویہ کے دشمنوں نے مچا رکھا ہے۔ اور یہ کہ ان سے مروی روایات میں چاہے انہوں نے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کیں یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان میں اس لیے شک نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں
Flag Counter