Maktaba Wahhabi

405 - 503
ہوا کرتے تھے انہوں نے اس نظام میں اس قدر دلچسپی لی کہ اس کا جہاد کے ساتھ بڑا گہرا ربط و ضبط پیدا ہو گیا اور وہ جہاد ہی کا ایک حصہ قرار پایا اور اسلام کے لیے تڑپ رکھنے والے اور اس کی نصرت و معاونت کے لیے بے قراری کے ساتھ عمل کرنے والے مجاہدین اس کی طرف کھنچے چلے آتے۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دیگر اعمال کی طرح نظام رباط کو بھی بتدریج آگے بڑھایا اور پھر رباط کو ایسے قلعوں میں تبدیل کر دیا جن میں لشکری بیزنطی بحری بیڑوں سے ان کے حملوں کی زد میں آنے والے علاقوں کا دفاع کرنے کے لیے جمع ہوتے۔ یہ رباط ساحلی علاقوں کے باشندوں کے لیے اس وقت پناہ گاہوں کا بھی کام دیتے جب انہیں بیزنطی کشتیوں سے اپنے علاقے کے پانیوں میں کوئی خطرہ محسوس ہوتا۔ یہ رباطی قلعے لشکریوں کے لیے کمروں اور رہائش گاہوں کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور سامان خورد و نوش کے سٹورز پر مشتمل ہوتے اور جن پر نگرانی کے لیے بلند و بالا مینار بھی قائم کیے گئے تھے۔ پھر ان میں مزید وسعت آئی اور ان کی اہمیت اس قدر بڑھ گئی کہ وہ دشمن پر حملہ کرنے کے مراکز میں تبدیل ہو گئے۔[2] ساحلی علاقوں میں لوگوں کو زمینوں کے عطیات دینے کی پالیسی کو جو کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بحری جنگی تیاریوں سے قبل تشکیل دی تھی، اسے بحری دفاعی سیاست کے آخری قدم کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے بحری اڈوں کی تکمیل ہوئی اور پھر ان میں بحری بیڑے تیار کیے جانے لگے۔ ساحلی شہروں کی آبادی اور ترقی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۴۲ھ میں بعلبک، حمص اور انطاکیہ سے لوگ گروہ در گروہ اردن کے ساحلی شہروں صور اور عکا وغیرہ میں منتقل ہو گئے، اسی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں شہروں کے قلعوں کی بھی اصلاح کی اور خاص طور پر عکا کے قلعہ پر خصوصی توجہ دی جہاں سے نکل کر انہوں نے قبرص پر پہلا بحری حملہ کیا تھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے تمام ساحلی شہروں کو خصوصی توجہ دی اور حالات و ضروریات کے مطابق ان کے لیے ضروری ترقیاتی اقدامات لیے۔[3] ۳۔ بحر متوسط کے مشرق میں واقع جزائر پر قبضہ:… اس کا آغاز جزیرہ قبرص پر قبضہ سے ہوا، پھر انہوں نے ایک دوسرے اہم جزیرہ پر قبضہ کر لیا جو کہ رودس کے نام سے معروف ہے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس جزیرہ پر قبضہ کرنے کے بعد اس میں قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا اور اس کے دفاع کے لیے وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت کو متعین کر دیا اور اسے رباط قرار دے کر انہیں شام کے دفاع کی ذمہ داری بھی تفویض کر دی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ رودس میں مسلمانوں کو دینی ماحول میں رنگ دیا جائے اور اس کے باسیوں میں اسلام کا پرچم بلند کیا جائے، چنانچہ انہوں نے اس مقصد کے لیے وہاں کے لوگوں کو قرآنی تعلیمات سے آشنا کروانے کے لیے مجاہد بن جبر رحمہ اللہ نامی عالم و فقیہ کو بھیجا جو لوگوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔[4]
Flag Counter