Maktaba Wahhabi

412 - 503
تھے، تقریباً چار صدیاں بیت گئیں مگر اس کے ایجاد کنندہ کے علاوہ کوئی بھی اس کی حقیقت سے آگاہ نہ ہو سکا۔ آخر سن دس میلادی میں ماہرین اس آگ کے راز سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے اس کے عناصر ترکیبی سے پردہ اٹھایا اور لوگوں کو ان وسائل سے آگاہ کیا جن کے استعمال سے اسے بجھایا جا سکتا ہے۔ اس اسلحہ نے مزید ترقی کی تو اس نے دھماکہ خیز اشیاء کی شکل اختیار کر لی جسے منجنیقوں کی مدد سے دشمن پر پھینکا جاتا جس سے ایک شعلہ بلند ہوتا اور ساتھ ہی دھویں کا بادل اٹھتا اور خوفناک آواز سنائی دیتی، اس اختراع نے مسلم سائنسدانوں کی توجہ حاصل کی تو اس بارے میں سوچ و بچار اور تحقیق کرنے لگے اور آخرکار وہ سن گیارہ میلادی کے آغاز میں اس کی ٹیکنالوجی سے آگاہ ہو گئے اور پھر انہوں نے اس میں متعدد تبدیلیاں کر کے اسے پہلے سے زیادہ تباہ کن اور افریقی آگ سے زیادہ بھڑک دار بنا دیا۔ مسلمانوں نے اس تباہ کن ہتھیار کو سرزمین شام میں صلیبیوں کے ساتھ اپنی جنگوں میں استعمال کیا جس سے ان پر ضرب کاری لگی اور وہ مرعوبیت اور گھبراہٹ کا شکار ہو گئے، اس وقت سے یہ آتشیں ہتھیار اسلامی آتشیں ہتھیار کے نام سے معروف ہو گیا۔[1] ڈاکٹر ابراہیم العدوی رقمطراز ہیں: مسلمانوں کے پاس موجود اس جدید ہتھیار کی شناخت سے ان کے دشمن بے بس ہو گئے اور یہ اسلامی آتشیں ہتھیار چودھویں صدی تک ان کے استعمال میں رہا۔ اسے ترقی دینے کے لیے اس میں بہت ساری تبدیلیاں کی گئیں اور جس کا نتیجہ بارود کی صورت میں سامنے آیا۔ اس بنا پر اسلامی آتشیں ہتھیاروں کو جنگ کے مختلف طریقوں میں اس خطرناک انقلاب کی بنیاد تسلیم کیا جاتا ہے جس سے نئی دنیا آشنا ہوئی اور اس سے مسلمانوں نے ثابت کر دیا کہ وہ دشمن کے کسی بھی ہتھیار کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے نہیں رہتے اور یہ کہ وہ اس چیز کے استعمال پر قادر ہیں جس میں ان کی منفعت پنہاں ہو۔[2] ہم اللہ رب کائنات سے دعا کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو امریکی اور مغربی فوجی برتری کا توڑ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! ۲۔ لوہے کی بھاری بھر کم زنجیر جو کہ قسطنطنیہ کی بندرگاہ اور ایشیائی ساحل کے درمیان حائل تھی جسے حالت جنگ یا محاصرے کی وارننگ کے دنوں میں بند کر دیا جاتا تھا۔[3] ۳۔ بھاری بھر کم اندرونی اور بیرونی دیواریں، جن پر نگرانی کے لیے بڑے بڑے ٹاورز بنائے گئے تھے، جن سے دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے اور اس کی طرف سے کسی فوری کاروائی کو روکنے میں بڑی مدد ملتی۔ ۴۔ سمندری پانیوں پر ایک دوسرے سے جڑے شہروں کے محاصرہ کے بارے میں اموی حکومت کی ناتجربہ کاری، جن میں سے قسطنطنیہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس کے لیے جدید ترین ہتھیاروں کی ضرورت تھی جو کہ اس وقت تک اموی حکمرانوں کے پاس موجود نہیں تھا۔[4]
Flag Counter