Maktaba Wahhabi

427 - 503
یہ سلسلہ تعلیم جاری رکھتے ہوئے عربوں کو حکم دیا کہ وہ بربر قبائل کے لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور دین کے مسائل سے آگاہ کریں۔[1] انہوں نے مغرب اقصیٰ کے لوگوں کو تعلیم دینے کی غرض سے وہاں ستائیس فقہاء کا تقرر کیا۔[2] د: اسلامی لشکر کے زیادہ تر لوگ اپنی بیویاں بھی اپنے ساتھ لے کر آئے تھے، ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے افریقہ میں لونڈیاں اور امہات الاولاد اپنا رکھی تھیں۔ ابو العرب[3] کہتے ہیں: بعض محدثین روایت کرتے ہیں کہ جب عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر جہاد کے لیے نکلے تو ان کی ام ولد بھی ان کے ساتھ تھی جس نے ان کی بچی کو جنم دیا جو مر گئی اور جسے انہوں نے باب سلم میں قریش کے قبرستان میں دفن کر دیا۔ جسے قریش نے اس بچی کی وجہ سے مستقل قبرستان بنا لیا جس میں وہ اپنے مردوں کو دفن کیا کرتے تھے۔[4] دریں حالات مسلمان نوخیز بچوں کے لیے عربی زبان اور مبادیات اسلام کی تعلیم کا اہتمام کرنا ازحد ضروری تھا، یہی وجہ تھی کہ قیروان میں آغاز ہی سے تعلیم گاہیں قائم کر دی گئیں۔ غیاث بن شبیب سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سفیان بن وہب رضی اللہ عنہ ہمارے پاس سے گزرتے اس وقت ہم قیروان میں بچپن کی عمر میں تھے، وہ ہمیں سلام کہتے جبکہ ہم مکتب میں ہوتے، انہوں نے سر پر پگڑی باندھ رکھی ہوتی جس کا ایک سرا پیچھے کی طرف لٹکا رکھا ہوتا۔[5] سفیان بن وہب رضی اللہ عنہ دو دفعہ قیروان آئے تھے۔ پہلی دفعہ ۶۰ھ میں، یعنی قیروان کی تاسیس سے پانچ سال بعد، اور دوسری دفعہ ۷۸ھ میں۔[6] ھـ: قیروان کے محل وقوع کا بھی علمی زندگی کو مالا مال کرنے اور اسے اوپر اٹھانے میں بڑا اہم کردار ہے۔ یہ شہر مشرق و مغرب کے درمیان میں واقع ہے جب مغرب اور اندلس کے علماء و طلباء مشرق جانے کے لیے وہاں سے گزرتے تو وہ اس کے علماء سے استفادہ کرتے۔[7] اسی طرح اہل مشرق میں سے جو لوگ مغرب یا اندلس جانا چاہتے وہ بھی اس شہر میں آتے اور وہاں کے اہل علم سے علمی استفادہ کرتے۔[8] و: قیروان میں تجارت بڑی نفع بخش تھی اور اس میں سامان تجارت بڑی جلدی فروخت ہو جاتا تھا، لہٰذا مشرق و مغرب کے بڑے بڑے تاجروں کا وہاں آنا جانا لگا رہتا، ان تاجروں میں بہت سے محدثین اور فقہاء بھی ہوتے۔ قیروان میں علمی زندگی کی ترقی کا یہ بھی ایک اہم عامل تھا۔[9]
Flag Counter