Maktaba Wahhabi

434 - 503
اشارہ کرنا تھا کہ بربر کے سردار کسیلہ کی عزت و توقیر کرنا اور اس کی تالیف قلبی کی کوشش کرنا تاکہ وہ اسلام پر کاربند رہے۔ مگر عقبہ نے اس کی توہین کی، وہ یوں کہ انہوں نے ایک دن اسے اپنے سامنے بکری کی کھال اتارنے کا حکم دیا مگر کسیلہ نے اسے اپنے غلاموں کے حوالے کر دیا مگر عقبہ چاہتے تھے کہ وہ یہ کام خود کرے اور اس کے لیے انہوں نے اسے ڈانٹ بھی دیا۔ اس پر کسیلہ غضب ناک ہو کر اٹھا وہ جب بھی اپنا ہاتھ بکری میں داخل کرتا اسے اپنی داڑھی سے صاف کرتا۔ جب یہ خبر ابو المھاجر کو ملی تو انہیں اس کام سے منع کرتے ہوئے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب سرداروں کی تالیف قلبی فرمایا کرتے تھے جب کہ تم نئے نئے مسلمان ہونے والے اپنی قوم کے سردار کی اس کی عزت کے گھر میں بے عزتی کر کے اس کے دل کو متنفر کر رہے ہو۔ اس آدمی پر اعتماد کریں مجھے ڈر ہے کہ تم اسے کھو دو گے۔[1] مگر عقبہ نے اسے کوئی اہمیت نہ دی۔ ہم آئندہ چل کر مسلمانوں کے ساتھ کسیلہ کی غداری اور دیگر امور کے بارے میں گفتگو کریں گے، ایک دن عقبہ نے ابو المھاجر سے کہا: تم قیروان جا کر مسلمانوں کے بارے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرو، میں شہادت کا متمنی ہوں، اس کے جواب میں ابو المھاجر نے کہا: میں بھی تمہاری طرح شہادت کا خواہش مند ہوں۔ اس پر ان دونوں نے اپنی اپنی تلواروں کو نیاموں سے نکالا اور ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا اور پھر لڑتے لڑتے موت کی نیند سو گئے۔[2] قبل ازیں ہم ملاحظہ کر چکے ہیں کہ ابو المھاجر نے ایک بڑی جنگ میں رومیوں اور بربر کو شکست سے دوچار کر دیا جس کی وجہ سے بعض بربر زعماء دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے جن میں سرفہرست کسیلہ تھا، اس کے ساتھ اس کی قوم کے بہت سارے لوگ بھی مشرف باسلام ہو گئے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب عقبہ نے اس بربری سردار کی توہین و تذلیل کی تو انہیں اس کے اسلام کی صحت کا یقین نہیں تھا اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے لیے بڑے متواضع قسم کے انسان تھے، ان کا اجتہاد اس امر کا متقاضی تھا کہ اس آدمی کی تذلیل کی کوشش کی جائے تاکہ اس کی سرکشی کا زور ٹوٹ جائے اور اس کی قوم کے دلوں میں اس کا مقام و مرتبہ کم ہو جائے تاکہ اس کے بعد وہ انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکسانے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ مگر عقبہ نے اپنے اس اجتہاد میں غلطی کی اس لیے کہ اس کی قوم کے لوگ نئے نئے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے، عقبہ کے خیال میں اس کے عدم صدق کا جس قدر بھی احتمال تھا مگر لشکر اسلام میں اس کا باقی رہنا اور اس حکومت کے ماتحت رہنا اس کے ساتھ دشمن اور اسے مسلمانوں کو ضرب کاری لگانے کا موقع دینے سے کہیں بہتر تھا۔[3] عقبہ کے مذکورہ بالا موقف سے سنن اسلام پر عمل کرنے کے نتائج سے اہم ترین نتیجہ ہمارے سامنے آتا ہے اور وہ شوریٰ اور اہل حل و عقد کی رائے پر عمل کرنا، اور خاص طور پر اہم امور میں، بہرحال دونوں کمانڈرز اپنے اپنے تصرفات میں مجتہد تھے اور ان دونوں میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ خیال ذہن میں نہیں آنا چاہیے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات یا اپنے خاندان کے مفادات کے لیے کام کر رہا
Flag Counter