Maktaba Wahhabi

444 - 503
زہیر کی چیخ و پکار کسی کام نہ آئی بلکہ انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، حنش صنعانی اٹھ کر کہنے لگا: اللہ کی قسم! ہم تیری بات کو قبول نہیں کریں گے اور نہ تمہیں ہم پر حکومت کرنے کا کوئی حق ہے۔ پھر گویا ہوا: مسلمانو! تم میں سے جو شخص مشرق کی طرف واپس جانا چاہتا ہے وہ میرے ساتھ آئے۔ اس پر سب لوگ اس کے پیچھے چل دئیے اور زہیر کے ساتھ صرف اس کے اہل خانہ ہی باقی رہ گئے وہ وہاں سے اٹھا اور برقہ میں اپنے محل میں چلا گیا اور عبدالملک بن مروان کی حکومت تک وہیں مقیم رہا۔[1] رہا کسیلہ تو تمام افریقی اس کے پاس جمع ہو گئے اور اس نے قیروان کا قصد کیا، وہاں مسلمان اپنے مال و اسباب اور بچوں کے ساتھ رہ رہے تھے، انہوں نے کسیلہ سے امان کا مطالبہ کیا تو اس نے انہیں امان دے دی اور خود نہروان میں داخل ہو گیا اور اس طرح اس نے افریقہ پر قبضہ جما لیا۔ کسیلہ قیروان میں بغیر کسی مدافعت کے مقیم رہا یہاں تک کہ عبدالملک بن مروان کی حکومت کی گرفت مضبوط ہو گئی۔[2] اگرچہ افریقہ کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکال لیا گیا تھا مگر وہ اسلام سے باہر نہیں نکلا تھا۔ کتنے ہی بربر قبائل نے اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ اسلام پر ہی قائم تھے۔ وہ قیروان میں ہی مقیم رہے۔ یہ لوگ بڑے بہادر اور جنگجو تھے اور کسیلہ کو اس کا اعتراف بھی تھا، جب اس کے لشکر کے سامنے یہ تجویز پیش کی گئی کہ زہیر بن قیس کے لشکر کا مقابلہ کرنے کے لیے قیروان سے نکل کر کسی اور جگہ کا انتخاب کیا جائے تو اس نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ یہاں سے نکل کر ’’ممس‘‘ جا بسیں اس لیے کہ اس شہر (قیروان) میں بہت سارے مسلمان آباد ہیں اور ان کا ہمارے ساتھ ایک معاہدہ ہے اور ہم وہ معاہدہ توڑنا نہیں چاہتے، ہمیں ڈر ہے کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو وہ ہمارے خلاف ڈٹ جائیں گے۔[3] قیروان ۶۴ھ سے ۶۹ھ تک تقریبا پانچ سال کسیلہ کے قبضہ میں رہا یہاں تک کہ زہیر بلوی نے عبدالملک بن مروان کی طرف سے ایک بہت بڑے لشکر کی مدد سے اسے اس کے قبضہ سے واگزار کرا لیا۔ ہم عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت کے بارے گفتگو کے دوران زہیر کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ اِنْ شَائَ اللّٰہُ۔ حضرت عقبہ کی شہادت میں ہمارے لیے بڑی گہری عبرت ہے اور وہ یہ کہ دشمن سے ہمیشہ خبردار رہنا چاہیے۔ عقبہ شہادت کے شوق میں جنگجوؤں کی تھوڑی سی نفری میں باقی رہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک عظیم مقصد ہے مگر ان کی شہادت سے شمالی افریقہ کی فتوحات پر بڑے برے اثرات مرتب ہوئے، قیروان پانچ سال تک مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا اور دعوت اسلامیہ تاخیر کا شکار ہو گئی، لہٰذا قائدین کے لیے ضروری قرار پاتا ہے کہ وہ شوق شہادت اور امت کی مصالح کے درمیان توازن برقرار رکھا کریں۔
Flag Counter