Maktaba Wahhabi

467 - 503
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بطور قائد اور والی خدمات سر انجام دیا کرتے تھے، ان کی خلافت کے ایام میں انہیں اسلامی حدود پر واقع بعض دفاعی قلعے تعمیر کرنے اور بعض لوگوں کو ان کی مرمت وغیرہ کرنے کی ذمہ داری بھی تفویض کی گئی تھی، پھر جب زمام خلافت ان کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے اس بارے جس کام کا آغاز کیا تھا اس کی تکمیل کی، جزیرہ کی سرحدوں پر کئی قلعے تعمیر کروائے، ان میں فوجیوں کو آباد کیا اور پھر ان کی مسلسل نگرانی کرتے رہے۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ نے ساحلی شہروں کی حفاظت کے لیے نقل مکانی کی سیاست اختیار کی، اس کے لیے انہوں نے حمص، انطاکیہ اور بعلبک کے شہروں سے بعض فارسی لوگوں کو اردن، صور اور عکا وغیرہ شہروں میں آباد کیا جبکہ حبشہ، بصرہ، کوفہ، فارس، بعلبک اور حمص کے بعض لوگوں کو انطاکیہ کی حدود پر لا آباد کیا۔[2] کمانڈر عبدالعزیز بن حاتم باہلی آرمینیہ اور آذر بائیجان کے والی بنے تو انہوں نے دیبل شہر آباد کیا اور اس کے لیے کئی حفاظتی اقدامات کیے، انہوں نے نشویٰ شہر بھی تعمیر کیا۔[3] برزعہ[4] شہر کی مرمت کی اور بیلقان[5] کی تجدید کی اور متعدد دفاعی اقدامات کیے،[6] زیاد بن ابیہ نے قائد سپاہ ربیع بن زیاد حارثی[7] کو خراسان کی سرحدی پٹی پر متعین کیا اور اس کے ساتھ بصرہ اور کوفہ سے تقریباً پچاس ہزار لشکریوں کو ان کے اہل خانہ سمیت دولت اسلامیہ کی حفاظت کے لیے دون النہر لا کر آباد کیا۔[8] ایک دفعہ زیاد بن ابیہ نے اپنے ہم نشینوں سے پوچھا کہ سب سے خوشحال آدمی کون ہے؟ انہوں نے کہا: امیر المومنین! آپ۔ اس پر زیاد نے کہا: آخر وہ سب کچھ کہاں جائے گا جو میرے پاس سرحدوں اور خراج کی مد میں آتا ہے۔[9] زیاد سے اس کا یہ قول بھی مروی ہے: چار ذمہ داریاں صرف معمر لوگوں کو تفویض کرنی چاہئیں۔ سرحدیں، صحائف، پولیس اور قضاء۔[10] عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس خراج سے حاصل شدہ مال میں سے بہت کم مقدار میں مال بھیجا جاتا، اس کا زیادہ تر حصہ حفاظتی انتظامات اور سرحدی محافظین پر خرچ کر دیا جاتا تھا۔ [11] معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے موسم سرما اور موسم گرما کے لیے الگ الگ جن لشکروں کو ترتیب دیا گیا تھا وہ
Flag Counter