Maktaba Wahhabi

47 - 503
کر لیا، اب میں دوبارہ نصرانیت اختیار کر رہا ہوں۔ میں نے کہا: و اللہ! یہ تیرے لیے بہتر نہیں ہے اور پھر میں نے اسے اپنے خواب کے بارے میں آگاہ کیا۔ مگر اس نے اسے کوئی اہمیت نہ دی۔ وہ بکثرت شراب نوشی کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اسے موت نے آ لیا۔ پھر میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے کوئی ام المومنین کہہ کر پکار رہا ہے، میں یہ سن کر پریشان سی ہو گئی اور اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے شادی کریں گے۔ ابھی میں عدت کے ایام گزار کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ نجاشی کی لونڈی میرے پاس آ کر کہنے لگی: آپ کے نام بادشاہ کا پیغام ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خط لکھا ہے کہ میں تمہارا نکاح ان کے ساتھ کرا دوں، آپ کو مبارک ہو۔ بادشاہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ کسی آدمی کو اپنا وکیل مقرر کر دیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہارا نکاح کرا دے۔ میں نے خالد بن سعید بن العاص کو پیغام بھیج کر انہیں اپنا وکیل مقرر کر دیا۔[1] اس روایت سے سیّدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی بڑی فضیلت و منقبت ثابت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ آپ ہجرت حبشہ سے مشرف ہوئیں اور نامساعد حالات میں بھی اسلام اور ہجرت پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔[2] ب: ان کے فضائل و مناقب میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ان کے باپ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ آنے پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھنا چاہا تو انہوں نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور یہ اس لیے کہ اس وقت وہ مسلمان نہ ہوئیتھے۔ انہوں نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔[3] محمد بن مسلم زہری سے مروی ہے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ان دنوں آپ غزوہ مکہ کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح حدیبیہ کی مدت میں اضافہ کرنے کی درخواست کی مگر آپ نے اسے مسترد فرما دیا، پھر وہ یہاں سے اٹھا اور اپنی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا۔ جب اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھنا چاہا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر لپیٹ دیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہنے لگا: بیٹی! تو نے یہ قدم میرے احترام میں اٹھایا یا بستر کے احترام میں؟ انہوں نے جواب دیا: یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ہے اور تم مشرک و پلید ہو۔ یہ سن کر ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہنے لگا: بیٹی! میرے بغیر تجھے برائی نے آ لیا ہے۔[4] ج: ابن سعد اور حاکم، عوف بن مالک رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فرما رہی تھیں: نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے موت کے وقت مجھے اپنے پاس بلایا اور پھر کہنے لگیں: ہو سکتا ہے کہ ہمارے درمیان سوتنوں جیسی کوئی بات ہو گئی ہو، اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے بھی معاف فرمائے اور آپ کو بھی۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہاری اس قسم کی تمام باتیں معاف فرمائے۔ اس پر وہ کہنے
Flag Counter