Maktaba Wahhabi

476 - 503
نہیں کیا۔[1] جبکہ ابن کثیر نے اس بات کا اضافہ کیا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے سونا اور چاندی بیت المال میں بھجوانے کا مطالبہ کیا۔[2] میں اس جگہ اس بات کی یاددہانی ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام میں مال غنیمت کے مصارف کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں واضح فرما دیا ہے: ﴿وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ﴾ (الانفال: ۴۱) ’’اور جان لو کہ تم جس قسم کی جو بھی غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کا اور رسول کا ہے، اور قرابت داروں کا، اور یتیموں اور مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اموال غنیمت کے چار حصے لشکر میں تقسیم کیے جائیں گے اور بچ جانے والا پانچواں حصہ اس آیت کریمہ کی روشنی میں تقسیم کیا جائے گا اور یہ حکم معاویہ رضی اللہ عنہ پر مخفی نہیں تھا، معاویہ رضی اللہ عنہ کی دین داری اور عدل ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ردّ کرنے سے مانع تھی۔[3] طبری کی روایت کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکم بن عمرو غفاری نے اخذ کردہ مال غنیمت لشکر میں فوراً تقسیم نہیں کیا تھا۔ اگرچہ اس بارے شریعت کا حکم بالکل واضح تھا۔ بلکہ اس بارے میں ان کے اور زیاد کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا۔ مال غنیمت کی تقسیم میں اس تاخیر کے کئی احتمالات ہیں جن سے روایت میں وارد غموض کے ازالہ کو ممکن بنایا جا سکتا ہے اور وہ احتمالات مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس بات میں دلچسپی تھی کہ مال غنیمت کا خمس جس کی تقسیم امام المسلمین کیا کرتا ہے، سونے اور چاندی پر مشتمل ہو۔ ۲۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس بات میں دلچسپی تھی کہ سونے اور چاندی پر مشتمل مال غنیمت کو اس سے خمس الگ کرنے اور اسے تقسیم کرنے سے پہلے اسے ہندوستان لے جا کر مہنگے داموں وہاں فروخت کر دیا جائے[4] اور بعد ازاں خمس اس کی قیمت سے نکالا جائے جس سے سب کا فائدہ ہو۔[5] ۳۔ بیت المال میں اچانک کمی واقع ہو گئی ہو اور اس بنا پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ ایک طے شدہ وقت تک وہ مال غنیمت قرض کے طور پر حاصل کر لیا جائے جو حکم بن عمرو کے لشکر نے حاصل کیا تھا اور یہ کہ لشکر میں اس کی تقسیم کو کچھ وقت کے لیے مؤخر کر دیا جائے۔[6]
Flag Counter