Maktaba Wahhabi

480 - 503
محاصرہ کرنے والے لشکر کی قیادت کرنے کی وجہ سے یزید کچھ متعارف بھی ہو چکا تھا۔ اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ حالات کو یزید کی خلافت کے لیے تیار کرنے لگے، زیاد جو قبل ازیں زیاد بن ابیہ کے نام سے معروف تھا اب وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھائی بن چکا تھا اور زیاد بن ابوسفیان کہلانے لگا تھا، لہٰذا اس کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کا مشورہ کرنا ضروری ہو چکا تھا۔ یہ مشاورت کیسے ہوئی اور اس بارے زیاد کا کیا کردار رہا؟[1] طبری فرماتے ہیں: جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کے لیے بیعت لینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے زیاد سے مشورہ لینے کے لیے اسے خط لکھا۔ زیاد نے عبید بن کعب نمیری کو بلا کر اس سے کہا کہ مشورہ کے لیے کوئی نہ کوئی قابل اعتماد آدمی مل ہی جاتا ہے اور ہر اک راز کے لیے کوئی نہ کوئی امین بھی میسر آ ہی جاتا ہے۔ دو باتوں نے لوگوں کو خراب کر دیا ہے: افشائے راز اور نااہل لوگوں کی خیر خواہی۔ راز کے بارے میں صرف دو آدمیوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، ایک تو دین دار شخص جو اخروی اجر و ثواب کی امید رکھتا ہو اور دوسرا دنیا دار آدمی جو شریف النفس ہو اور جسے اپنی عزت کی فکر ہو اور میں نے یہ دونوں باتیں تجھ میں دیکھیں اور مجھے پسند آئیں۔ میں نے تجھے ایک ایسی بات کے لیے اپنے پاس بلایا ہے جس سے میرے نزدیک قلم و قرطاس کا آشنا ہونا بھی درست نہیں۔ امیر المومنین نے مجھے لکھا ہے کہ انہوں نے یزید کے لیے بیعت لینے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے، انہیں لوگوں کے متنفر ہونے کا ڈر بھی ہے اور وہ ان کی موافقت و مطابقت کی امید بھی رکھتے ہیں اور وہ اس بارے میں مجھ سے مشورہ طلب کرتے ہیں، مگر اسلام کے ساتھ تعلق اور ذمہ داری بہت بڑی چیز ہے، یزید بڑا کاہل و سست آدمی ہے نیز وہ شکار کا بھی بڑا شوقین ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم امیر المومنین کے پاس جاؤ اور انہیں یزید کے بارے میں میرے تاثرات سے آگاہ کرو اور انہیں کہو کہ تأمل سے کام لیں اور جلدی نہ کریں۔ آپ جو کچھ چاہتے ہیں وہی ہو گا، عجلت سے کام نہ لیں جس تأخیر سے مقصد حاصل ہو جائے وہ اس تعجیل سے بہتر ہے جس سے مقصدچھوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔ اس پر عبید نے اس سے کہا: تیرے ذہن میں اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہے؟ زیاد نے کہا: اس کے علاوہ کیا بات ہو سکتی ہے؟ اس نے کہا: معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے پر اعتراض کرنا درست نہیں ہے اور نہ انہیں ان کے بیٹے سے متنفر کرنا ہی صحیح ہے۔ میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے چھپ کر یزید سے ملاقات کروں گا اور اسے تیری طرف سے بتاؤں گا کہ امیر المومنین نے تمہاری بیعت کے لیے اس سے مشورہ طلب کیا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری بعض باتوں سے لوگ بیزار ہیں، لہٰذا میری یہ رائے ہے کہ لوگ تمہاری جن باتوں کو ناپسند کرتے ہیں انہیں ترک کر دو اس طرح امیر المومنین کی پوزیشن مضبوط ہو جائے گی اور جو کام تم چاہتے ہو وہ بھی آسانی سے ہو جائے گا۔ اس طرح تم یزید کے بھی خیرخواہ ٹھہرو گے اور امیر المومنین کو بھی خوش رکھ سکو گے اور امت کی ذمہ داری کا تمہیں جو خوف لاحق ہے تم اس سے بھی بچے رہو گے۔
Flag Counter